انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی ایگزیکٹ پر جعلی اسناد سے لاکھوں ڈالرز کمانے کی خبر دینے والے نیو یارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کئی ثبوت شامل نہیں کیے۔

امریکی روزنامے میں خبر آنے کے بعد پاکستان نے کمپنی کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

ایگزیٹ نے خبر کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ پچھلے دو دنوں میں پاکستانی میڈٰیا کی توجہ اس خبر اور اس سے جڑے معاملات پر مرکوز ہے۔

بی بی سی اردو نے بدھ کو والش سے گفتگو کی اور ان سے پوچھا کہ اس خبر کے پیچھے کیا محرکات تھے۔

اس پر والش نے بتایا کہ وہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری بالخصوص ٹی وی سیکٹر میں آنی والی تبدیلیوں اور پچھلے دو سالوں میں میڈیا تنازعات پر تحقیق کر رہے تھے جبکہ ان کی نظر نئے ٹی وی چینل بول اور ان سے جڑے لوگوں پر پڑی۔

والش نے بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے کئی صحافیوں سے بات چیت کی لیکن کسی کے پاس کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں، جس پر انہوں نے خود ہی ٹی وی چینل کے پیچھے موجود کمپنی ایگزیٹ کے اصل کاروبار جاننے کیلئے کام شروع کیا۔

ایگزیٹ نے اپنی ویب سائیٹ پر جاری بیان میں الزام لگایا تھا کہ اس خبر کے پیچھے بول چینل سے خائف حریف میڈیا گروپ ہیں۔

جب بی بی سی اردو نے والش سے ان الزامات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا: میں سمجھ سکتاہوں کہ اس طرح کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے یہ سچ نہیں اور اگر پاکستانی میڈیا چینلز اس خبر کو اپنے مفادات یا پھر بول کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تو اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں والش نے جواب دیا کہ ایگزیٹ کے عدالت میں جانے کی صورت میں وہ پر اعتمادی سے اپنا دفاع کریں گے۔

’ہم نے رپورٹ کیلئے کمپنی کے کئی سابق ملازمین سے انٹرویوز کیے جن میں سے ایک کا ذکر خبر میں شامل ہے لیکن بہت سے ثبوتوں کو خبر کا حصہ نہیں بنایا گیا‘۔

’ہماری خبر کے بعد پاکستان کے تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ایگزیٹ کے دفاتر سے کئی ثبوت ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کمپنی جعلی یونیورسٹیوں کا کام کر رہی تھی‘۔

جب والش سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی خبر میں ذرائع کا نام استعمال نہیں کیا تو کیا ان کی ساکھ متاثر ہوئی؟ اس پر والش نے کہا کہ صحافت میں اپنے ذرائع کو خفیہ رکھناعام ہے بالخصوص اُس وقت جب ذرائع کا نام افشا کرنے سے ان کی جان و مال کو نقصان کا اندیشہ ہو۔

والش کے مطابق، ایگزیٹ میں بھرتی ہونے والے ملازمین کو ایک قانونی معاہدے پر دستخط کرنا ہوتے ہیں جس کے مطابق وہ اپنی ملازمت کے بارے میں کھلے عام بات نہیں کر سکتے۔

والش نے بتایا کہ انہوں نےانٹرویو دینے والے ایگزیکٹ کے سابق ملازمین کی شناخت کی مکمل جانچ پڑتال بھی کی تھی۔’انٹرویو کے دوران کئی لوگوں کی کہانیاں ملتی جلتی نظر آئیں اور صورتحال اور واضح ہوتی چلی گئی جس سے ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ درست کہہ رہے ہیں‘۔

بی بی سی اردو نے جب پوچھا کہ آیا امریکی ادارہ ایف بی آئی خود کوئی کارروائی کر سکتا ہے تو والش نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا میں اس طرح کی کمپنیوں کی ناصرف تحقیق کی بلکہ سزائیں بھی دلوائیں لیکن ملک سے باہر کارروائی کرنے میں ایف بی آئی کو مشکلوں کا سامنا ہو گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

humair May 21, 2015 09:12am
koi is se ya bhi poch leta is ko koi kam nhe .......isko financial support kis ne ki kon ha akhar iski back par??????