مینگورہ: وادیٔ سوات کے علاقے اوڈی گرام میں ایک قبائلی جرگہ خواتین ووٹروں کو 30 مئی کے بلدیاتی انتخابات میں حقِ رائے دہی کے استعمال سے روکنے کے لیے متحرک ہے۔

جرگے کے اراکین قدامت پسند روایت کے نام پر علاقے کے عمائدین کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ خواتین کو ان کے حقِ رائے دہی سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران مقامی بزرگوں اور انتخابی امیدواروں کے درمیان ایک معاہدے کی وجہ سے علاقے کی کسی ایک خاتون نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا۔

اس جرگے نے خواجہ خیل کے علاقے کی مرکزی مسجد میں پیر اور منگل کی رات کو عشاء کی نماز کے بعد مقامی عمائدین سے ملاقات کی، اور انہیں آنے والے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے اقدامات پر قائل کیا۔

اگرچہ لوگوں کی اکثریت نے خواتین کو حقِ رائے دہی سے محروم رکھنے پر جرگے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ تاہم بابر علی جو ان دونوں ملاقاتوں میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ ’’زیادہ تر امیدواروں نے جرگے کے خیال سے اتفاق کیا ہے۔‘‘

پی ٹی آئی کے امیدوار یوسف جان بھی ان ملاقاتوں میں شریک تھے، کہتے ہیں کہ جرگے کے ارکان نے خواتین کووٹروں پر مجوزہ ’پابندی‘ پر تبادلہ خیال کیا ہے، تاہم ابھی وہ کسی معاہدے تک نہیں پہنچے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’جرگہ اگلے دنوں میں اس معاملے پر مزید بات چیت کرے گا۔‘‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ قدامت پرست مقامی روایات کے تحت جرگے کے فیصلے کی پیروی کرنے کے پابند ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام فضل کے مقامی رہنما حبیب علی شاہ نے کہا ’’اگرچہ میں اس جرگے میں موجود نہیں تھا، لیکن یہ واضح ہے کہ اگر جرگے نے خواتین ووٹروں پر پابندی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا تو ہم اس کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ ماضی میں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں پیدا کی گئی تھیں۔

امن کوٹ یونین کونسل کے حصوں میں انتخابی امیدواروں اور عمائدین کے بارے میں ایسی غیرمصدقہ رپورٹیں بھی آئی ہیں، کہ انہوں نے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

رابطہ کرنے پر اسسٹنٹ کمشنر اشفاق خان نے کہا کہ خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’’خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے کوئی بھی منع نہیں کرسکتا۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، اور انتخابی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘‘

حال ہی میں انتخابی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اگر خواتین کے کاسٹ کیے گئے ووٹوں کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی نتائج کالعدم قرار دے دینا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں