چمن سے کیلیفورنیا تک کلیم اللہ کا دلچسپ سفر

فروری ،2014 لاہور کی سرد شام میں جیسے ہی سورج آرمی فٹبال اسٹیڈیم کے عقب میں غروب ہونا شروع ہوا تو کلیم اللہ کو رائٹ ونگ پر گیند ملی۔

پاکستان آرمی کے تین دفاعی کھلاڑیوں نے مل کر خان ریسرچ لیبارٹری(کے آر ایل) کے اسٹرائیکر کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن کلیم دو کھلاڑیوں کو بائیں جانب جھانسہ دینے میں کامیاب رہے جبکہ تیسرے کو دائیں طرف سے تیزی سے پار کرتے ہوئے گیند سامنے محمود خان کو پہنچا دی۔

محمود نے فوراً گیند اپنے ساتھ دوڑتے ہوئے کلیم کو واپس کی جنہوں نے پلک جھپکے ساتھی کھلاڑی صدام حسین کو ایک شاندار پاس دیا جنہوں نے گول کیپر کو چکما دے کر مقابلہ کے آر ایل کے حق میں 2-0 کردیا۔

کلیم نے اس گول سے سات منٹ قبل ہی میچ میں اپنی ٹیم کو برتری دلائی تھی۔ کے آر ایل کو لگاتار تیسرا پاکستان پریمیئر فٹبال لیگ(پی پی ایف ایل) ٹائٹل جیتنے کیلئے صرف میچ ڈرا کرنے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے ٹائٹل کی جیت پر فتح منانی شروع کردی لیکن کوچ طارق لُطفی کےذہن میں یہ بات موجود تھی کہ یہ ان کی ٹیم کا عروج ہے اور وہ وقت دور نہیں جب دنیا بھر کی متعدد ٹیمیں ان کے باصلاحیت کھلاڑیوں کا پیچھا کر رہی ہوں گی۔

کے آر ایل کے ونگر محمد عادل کرغزستان کے بڑے کلب ڈورڈوئی بشکیک کے ساتھ معاہدہ کر چکے تھے اور ٹیم کیلئے آخری میچ کے تین دنوں میں وہ روانہ ہونے والے تھے۔

بہت سی ٹیمیں کلیم کے پیچھے بھی لگی ہوئی تھیں اور لطفی نے اندازہ لگا لیا تھا کہ چمن میں پیدا ہونے والا یہ اسٹرئیکر بھی اس ڈگر پر جانے والا اگلا کھلاڑی ہو گا۔ کلیم جانتے تھے کہ انہیں اپنے معاون عادل کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی ۔

یہ سیزن گزشتہ سیزن 32 گول داغ کراپنی دھاک بٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنی قابلیت منوانے والے کلیم اللہ کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا تھا۔

ڈومیسٹک ٹائٹل جیتنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرنے والی کے آر ایل کی اس سال گولوں کی تعداد گھٹ کر 21 ہو گئی تھی لیکن مجموعی طور پر ان کے کھیل میں بہتری آئی تھی۔

کلیم نے عادل کے ساتھ ایک ایسا گٹھ جوڑ بنایا تھا جس نے پی پی ایف ایل میں تمام ٹیموں کو دفاع کو دہشت زدہ کردیا تھا۔آرمی کے خلاف میچ کے بعد لطفی نے کہا تھا کہ ’اس سیزن میں سب سے متاثر کن کھلاڑی کلیم رہے‘۔

’وہ اس سیزن ایک مکمل کھلاڑی بن چکے ہیں، وہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان میں ایک بہترین پیشہ ور کھلاڑی بننے کے تمام گر موجود ہیں‘۔

2013 کے سیزن میں کلیم نے خود کو فرنٹ کے بجائے پیچھے کھیلنے کو ترجیح دی اور مڈ فیلڈ میں آ کر دوسروں کے لیے گول کرنے کے مواقع پیدا کیے۔ ان کی شاندار پاسنگ کی بدولت دیگر کھلاڑیوں نے بھی گول اسکور کیے۔

لطفی نے کلیم کو اپنے کیریئر کا سب سے متاثر کن کھلاڑی قرار دیتے ہوئے کہا ’ میرا نہیں خیال کہ ہم اسے زیادہ عرصے تک اپنے پاس روک سکیں گے‘۔

لطفی بالکل صحیح تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد کلیم اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کائریگز شورو لیگ پہنچے اور پھر اس سال جون کے اوائل میں انہوں نے امریکا کے ساکرامینٹو ریپبلک فٹبال کلب سے چار ماہ کا معاہدہ کیا۔

کلیم نے امریکی کلب سے معاہدے کے بعد ڈان سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ’ میرے لیے یہ صرف آغاز ہے‘۔

ان کا اب تک کا سفر خاصا متاثر کن ہے اور کلیم کو امید ہے کہ بچے ان سے متاثر ہو کر پاکستان فٹبال کو کیریئر بنانے کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچیں گے۔

ذاتی المیہ

کلیم نے فٹبال کی توجہ پہلی مرتبہ 13-2012 کے سیزن میں شاندار کارکردگی کے ذریعے حاصل کی۔

اس وقت بے ترتیب بالوں اور شیو کے حامل لمبے نوجوان لڑکے نے سیزن میں 32 گول داغ دیے جو 30 میچوں پر محیط پی پی ایف ایل میں اب تک کسی کھلاڑی کی جانب سے کیے گئے گولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

ان کی یہ کامیابی اس لحاظ سے بہت بڑی ہے کہ وہ اس سیزن کے ابتدائی نو میچوں میں کوئی بھی گول کرنے میں ناکام رہے تھے۔

کلیم نے کہا کہ’ میں ابتدا میں لیفٹ ونگ سے کھیلا کرتا تھا اور پھر سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر خود کو سیٹ کرنے میں مجھے کچھ وقت لگا لیکن جب میں سیٹ ہو گیا تو پھر تیزی سے گول اسکور ہونے لگے‘۔

’وہ میرا بہت شاندار سیزن تھا‘

یہ سیزن کلیم کی زندگی کے بڑے ذاتی نقصان کے دو سال بعد آیا جب 2007 میں ان کی والدپ اور 2010 میں والد وفات پا گئے۔

کلیم نے روہانسے لہجے میں ماضی میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ’ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو میں وہاں موجود نہیں تھا اور پھر کے آر ایل کے ساتھ اے ایف سی پریذیڈنٹ کپ میں شرکت کیلئے میانمار جانے کی وجہ سے میں اپنے والد کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کر سکا‘۔

’یہ میرے لیے مشکل تھا، بہت مشکل۔ میں 18 سال کا تھا اور اپنے والدین کو کھو چکا تھا۔ میں اپنے والدین کو دکھانا چاہتا تھا کہ میں ایک بہترین پیشہ ورانہ فٹبالر بن سکتا ہوں‘۔

’آج میں جہاں بھی ہوں انہی کی دعاؤں سے ہوں۔ میں ان کی کمی بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اوپر جنت سے مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہوں گے‘۔

’اس مشکل وقت میں فٹبال نے ہی مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ فٹبال میرے لیے زندگی سے بڑھ کر ہے‘۔

کلیم اللہ نے تسلیم کیا کہ ابتدا میں ان کے والدین کھیلوں میں ان کی دلچسپی کے کچھ خاص حمایتی نہیں تھے۔

ان کے حمایت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت بہت سے لوگ یہ سوچتے تھے کہ فٹبالر کا کوئی مستقبل نہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ چمن نے متعدد مشہور کھلاڑی پیدا کیے جس میں قومی ٹیم کے سابق کپتان محمد عیسیٰ بھی شامل ہیں جو کلیم کے کزن بھی ہیں۔

کلیم نے گورنمنٹ ہائی اسکول چمن کے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’ لوگ مجھے کہتے تھے فٹبال میں زیادہ کمائی نہیں ۔۔۔۔ ایک پیشہ ورانہ فٹبالر کا کوئی مستقبل نہیں‘۔

’وہ مجھے کہتے تھے کہ میں کبھی بھی بہترین مقام تک نہیں پہنچ سکتا اور بحیثیت فٹبالر میرا مستقبل محض پاکستان تک محدود ہو گا کیونکہ اس وقت تک پاکستان کا کوئی بھی مقامی کھلاڑی بیرون ملک پروفیشنل فٹبال کھیلنے نہیں گیا تھا‘۔

’وہاں کوئی باقاعدہ اکیڈمی بھی نہیں تھی کہ جہاں نوجوان باصلاحیت فٹبالر کی پیشہ ورانہ بنیادوں پر تربیت کی جاتی۔لیکن میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میں اپنے گھر کے قریب اکیلا ہی ٹریننگ کیا کرتا تھا جہاں میں پوری شام فٹبال کو کک مارا کرتا تھا‘۔

یہ ان ہی خود ساختہ ٹریننگ سیشنز کا کمال تھا کہ کلیم کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت پہلی مرتبہ سامنے آئی۔

کلیم نے بتایا کہ’ میں معمول کے مطابق ٹریننگ کر رہا تھا جب ضلعی ٹیم کے دو لڑکوں کی مجھ پر نظر پڑی۔انہوں نے سوچا کہ مجھ میں صلاحیت ہے اور ٹیم نے مجھے سائن کر لیا‘۔

ضلعی سطح پر چند شاندار پرفارمنسز کی بدولت 2007 میں پی پی ایف ایل کی ٹیم افغان فٹبال کلب چمن کی نظر اس باصلاحیت نوجوان پر پڑی اور انہوں نے اسے اپنی یوتھ ٹیم کا حصہ بنا لیا۔ایک سال بعد ہی کلیم کو ترقی دے کر سینئر ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔

کلیم نے بتایا کہ’ اس موقع پر میرے والد کو اندازہ ہوا کہ مجھ میں ایک بہترین فٹبالر بننے کے گُر موجود ہیں۔لیکن اس کا اصل اندازہ اس وقت ہوا جب کے آر ایل کی جانب سے مجھے کال آئی‘۔

’کے آر ایل نے اپنے ہی خلاف ایک میچ میں مجھے افغان کلب کی نمائندگی کرتے ہوئے بحیثیت متبادل کھلاڑی صرف 20 منٹ کھیلتے ہوئے دیکھا۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا موقع تھا‘۔

قومی سطح پر پذیرائی

کلیم نے بتایا کہ کے آر ایل کے منیجر ایاز بٹ کو یقین تھا کہ’ مجھے میں اعلیٰ سطح تک پہنچے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ایاز بٹ نے کہاکہ وہ میرے اندر چھپی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، انہیں میری صلاحیتوں پر یقین تھا‘۔

اپنے پہلے ہی سیزن میں انہوں نے پی پی ایف ایل اور نیشنل چیلنج کپ جیتا لیکن اگلے سال کے قومی ٹورنامنٹ میں انہوں نے اپنی کامیابی کے نشانات چھوڑے۔

ملتان میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں انہوں نے کے آر ایل کو اعزاز کے دفاع میں مدد کی جس کے بعد لطفی نے 12-2011 میں ٹیم کے ہیڈ کوچ کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔

کلیم کے مطابق، لطفی اس طرح کے کوچ تھے جو ہمیشہ اپنے کھلاڑیوں کے پیچھے کھڑے رہتے، وہ مجھ پر بہتر سے بہتر کارکردگی کیلئے دباؤ ڈالتے رہے۔

کلیم نے ایک اور چیلنج کپ اور پی پی ایف ایل ٹائٹل اپنے نام کیا اور اس مہم کے دوران 13 گول بھی اسکور کیے۔

بنیادی طور پر کلیم کو دوسرے اسٹرئیکر کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا تھا جو بائیں بازو سے حملہ آور ہوتے تھے لیکن وہ مڈفیلڈ میں جگہ حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔

کے آر ایل میں کلیم کی ٹیم کے ساتھی کھلاڑی رضوان آصف سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلتے تھے لیکن 13-2012 کے سیزن کے آغاز سے قبل وہ انجری کا شکار ہو گئے۔

یہ موقع کلیم کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور لطفی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں ٹیم کے اٹیک کا مرکز بنا دیا۔

لطفی کا یہ فیصلہ انتہائی شاندار رہا اور کلیم نے کے آر ایل کیلئے گول پر گول اسکور کر کے اپنی ٹیم کو ٹائٹل جتایا۔ پاکستان کے فٹبال حلقوں میں انہیں ایک ابھرتا ہوا فٹبالر مانا جا چکا تھا۔

پاکستان کے سربین کوچ زویسا ملوساوجیوک بھی یہ چیز دیکھ چکے تھے لیکن انہوں نے عالمی میچوں میں کلیم کو سنبھال کر استعمال کرنے کو ترجیح دی۔

لیکن پھر 2013 کی ساف چیمپیئن شپ میں عبوری کوچ شہزاد انور کی زیر کوچنگ سب کچھ اس وقت بدل گیا جب کلیم نے بحیثیت اسٹرائیکر حسان بشیر کے ساتھ جوڑی بنائی۔

پاکستان اس ٹورنامنٹ کے گروپ مرحلے میں ہی باہر ہو گیا لیکن کلیم اور حسان کے ساتھ ساتھ ٹیم کی کارکردگی کو بھی سب نے سراہا ۔

اس وقت تک کلیم کانٹی نینٹل سطح پر بھی اپنے قدم جما چکے تھے جہاں انہوں نے اے ایف سی پریذیڈنٹ کپ کے پہلے راؤنڈ میں بھوٹان کے کلب یدزین کے خلاف کے آر ایل کی 8-0 کی فتح میں چار گول کیے۔

ستمبر 2013 میں ٹورنامنٹ کے فائنل راؤنڈ میں کلیم اللہ نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ بنائی جب انہوں نے اپنے مستقبل کے کلب ڈورڈوئی اور فلسطینی کلب الہلال قدس کے خلاف گول اسکور کر کے اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچایا جس کے ساتھ ہی کے آر ایل کسی ایشیائی ایونٹ میں یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی پاکستانی ٹیم بن گئی۔

فائنل میں ترکمانستان کے کلب بلکان کے ہاتھوں 1-0 شکست کے بعد کلیم اور کے آر ایل کے دل ٹوٹ گئے لیکن اسٹرائیکر نے اپنی کارکردگی سے سب کو متاثر کیا۔

کلیم نے کہا کہ’ پریذیڈنٹ کپ میں کارکردگی نے میری بہت مدد کی، ڈورڈوئی اور دیگر ٹیموں نے دیکھا کہ میں کیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں‘۔

اب جیسے ہی پی پی ایف ایل کا اگلا سیزن قریب آیا، وہ اپنے اندر تبدیلی لائے اور ایک پیشہ ورزانہ کھلاڑی لگنا شروع ہو گئے جو مستقبل میں کچھ بڑا کرنے کے اہل تھے۔

فروری 2014 میں آرمی اسٹیڈیم میں یہ کارکردگی ان میں سے ایک تھی جنہوں نے سیزن کو رونق بخشی۔ یہ ان کا کے آر ایل کے لیے اختتامی میچوں میں سے ایک میچ تھا جہاں انہوں نے اپنی ٹیم کو چوتھی مرتبہ پی پی ایف ایل کا ٹائٹل جتوایا اور پھر بشکیک اور ڈورڈوئی کی راہ لی۔

امریکی خواب کی تکمیل

کلیم نے کہا کہ ’ڈورڈوئی جانے سے مجھے اپنی صلاحیتوں کےر ساتھ ساتھ یہ بھی جانچنے کا موقع ملا کہ کیا میں کسی اور ملک میں کارکردگی دکھا سکتا ہوں‘۔

اور یقیناً وہ یہ معرکہ بھی سر کر گئے۔ ابتدامیں ان سے پانچ ماہ کا معاہدہ کیا گیا لیکن ان کی کارکردگی ہی کچھ ایسی تھی کہ ڈورڈوئی کے کوچ نے انہیں ایک کروڑ روپے مالیت کے دو سالہ معاہدے کی پیشکش کی۔

وہ 18 گول کے ساتھ لیگ میں سب سے زیادہ گول اسکور کرنے والے کھلاڑی بننے کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم کو کپ جتوانے میں بھی کامیاب رہے اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں سال کے بہترین کھلاڑی کا انعام بھی دیا گیا۔

اس کارکردگی کے بعد مختلف حلقوں کی دلچسپیاں بڑھنے لگیں۔ انہیں آئس لینڈ اور چین سے ٹرائل میں شرکت کی دعوت ملی تو دوسری جانب اسپورٹس ایجنسی کورا اسٹارز نے ان سے معاہدہ کر لیا۔

تاہم میرے ایجنٹس نے یونائیٹڈ سوکر لیگ پرو کی ٹیم ساکرامنٹو ریپبلک کے ساتھ ایک ماہ کا ٹرائل طے کیا۔

’ہر کھلاڑی اونچے مقام پر پہنچنا چاہتا ہے اور میں ان سے کسی طور مختلف نہیں، ساکرامنٹو ریپبلک نے مجھے اس اونچے مقام تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا‘۔

امریکی کلب نے انہیں ٹرائل کے لیے دعوت دی لیکن اس کے لیے بھی کلیم کو ڈورڈوئی سے اپنےمعاہدے کو ختم کرنا تھا۔’یہ ایک بہت بڑا رسک تھا لیکن مجھے خود پر یقین تھا، میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا‘۔

یہ یقین ہی تھا کہ رواں سال ستمبر میں 23 سال کے ہونے والے کلیم اللہ بظاہر کچھ نہ ہونے اور مشکل وقت کے باوجود آگےبڑھتے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ’ ٹرائل کے پہلے دن میرا ٹخنہ مڑ گیا اور مجھے ایک ہفتے آرام کا مشورہ دیا گیا لیکن انجری کے باوجود میں نے ٹریننگ کا عمل جاری رکھا۔ میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے اور مجھے معلوم تھا کہ یہ ابھی یا کبھی نہیں کی صورتحال ہے‘۔ ٹرائل کے آخری تین دنوں کے دوران انہیں ایک اور دھچکا لگا۔

’کلب مینجمنٹ نے مجھے بتایا کہ آخری تین دن بہت اہم ہوں گے لیکن پہلے ہی دن میرے اسی ٹخنے میں دوبارہ انجری ہو گئی‘۔

’یہ بہت ہی تباہ کن تھی۔ میں بمشکل چل پا رہا تھا لیکن میں نے فیصلہ کر لیا بس اب بہت ہو گیا اور اب میں پاکستان چلا جاؤں گا۔ میرا جسم میرا ساتھ چھوڑ چکا تھا ،میرے دماغ نے مجھے ایک آخری ہٹ لگانے کی ہمت دلائی‘۔

’میں نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور ٹرائل کے آخری دن جب کلب کے ڈائریکر وہاں آئے تو میں نے کچھ اچھی مووز بنائیں اور انہوں نے مجھ سے چار ماہ کا معاہدہ کر لیا‘۔

ساکرامنٹو کے ساتھ کھیلتے ہوئے کلیم کو انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیموں سنڈرلینڈ اور نیو کاسل یونائیٹڈ کے خلاف کھیلنے کا موقع بھی ملے گا۔

پاکستانی ٹیم کے کپتان نے کہا ’ ساکرامنٹو میں میرا مختصر قیام میرے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہو گا‘۔

اب تک دو میچوں میں بطور متبادل کھلاڑی شرکت کرنے والے کلیم نے کہا کہ آئندہ چار مہینے میرے کیریئر کی راہ متعین کریں گے۔

’میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کروں گا اور امید ہے کہ ایک طویل معاہدہ حاصل کر لوں گا۔ اسوقت میری توجہ بہترین کارکردگی دکھانے پر مرکوز ہے‘۔

معاہدے کے دوران کلیم 14 جولائی کو انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیم سنڈرلینڈ اور 18 جولائی کو نیو کاسل یونائیٹڈ کے خلاف بھی میچ کھیل سکیں گے۔

کلیم اللہ نے ان دو میچوں کے حوالے سے کہا ’ یہ میرے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھیلنے کا موقع ہو گا۔یہ میرے لیے ناصرف سیکھنے بلکہ ابھر کر سامنے آنے کا بہترین موقع ہو گا‘۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ ایک دن یورپ میں کھیلنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن فی الحال وہ امریکا میں خوش ہیں۔

’امریکا میں فٹبال کا کھیل پروان چڑھ رہا ہے، اگلے سیزن یہاں میجر سوکر لیگ میں فرانک لیمپرڈ اور اسٹیون جیرارڈ جیسے کھلاڑی کھیلتے نظر آئیں گے‘۔

تاہم کلیم کو امید ہے کہ اب ان کی کہانی سن کر پاکستان کے نوجوان پیشہ ورانہ فٹبالر بننے کے بارے میں ضرور سوچیں گے۔

’میرے خیال میں اب کم از کم پاکستان میں لوگ دیکھ سکیں گے کہ فٹبال کے کھیل میں بھی مستقبل ہے، یہ خواب دیکھنا ناممکن نہیں‘۔