راولپنڈی: محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے ایک خودکش بم حملے کی تحقیقات بند کردی ہیں۔یہ حملہ 12 دسمبر 2013ء کو گریسی لین میں ایک امام بارگاہ پر ہوا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی اسی طرح کے دو بم حملوں کے کیس کو غیرحل شدہ قرار دے دیا گیا تھا۔

غیرحل شدہ قرار دیے گئے پچھلے دونوں حملوں میں سے ایک نومبر 2012ء کے دوران ڈھوک سیداں میں محرم کے جلوس پر ایک خودکش بم حملہ تھا، جس میں بیس افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ دوسرا بم حملہ 30 اگست 2012ء کو ڈاکٹر حامد حسین کے ایک نجی کلینک پر بم حملہ تھا۔

واضح رہے کہ نورخان ایئر بیس چکلالہ کے نزدیک گریسی لین میں واقع امام بارگاہ اثناعشری کو ڈسٹرکٹ پولیس کی جانب سے دہشت گرد حملے کے لیے انتہائی غیرمحفوظ قرار دیا گیا تھا۔

تاہم 13 اکتوبر 2013ء کو اس وقت کے سی پی او راولپنڈی کو ارسال کی گئی اسپیشل برانچ کی ایک رپورٹ میں اس امام بارگاہ کو اپنی 13 حساس مقامات کی فہرست میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ غیرمحفوظ قرار دیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں پولیس پر زور دیا گیا تھا کہ یہاں سیکیورٹی اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کی جائے۔

اس کے دو ماہ کے بعد اس امام بارگاہ پر ایک خودکش بمبار نے حملہ کیا تھا۔ اس وقت جاری مجلس میں 700 افراد شریک تھے، اس حملے میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر ایئرپورٹ انسپکٹر رب نواز اور سب انسپکٹر امانت علی سمیت چار افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کی تحقیقات کے لیے محکمہ انسدادِ دہشت گردی، کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی اور اسپیشل برانچ کے سینئر عہدے داروں پر مشتمل ایک جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کو فعال بنائے جانے اور انسدادِ دہشت گردی کے نئے قوانین متعارف کرائے جانے کے بعد دہشت گردی سے متعلق کیسز محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب کو منتقل کردیے گئے تھے۔

ابتداء میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک شخص نے پارکنگ لاٹ میں اپنی موٹرسائیکل کھڑی کی اور امام بارگاہ کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ جب پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں نے اس کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے جسم پر پہنے ہوئے بم کو دھماکے سے اُڑا دیا۔

تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ خودکش بمبار پیدل تھا، اور وہ موٹرسائیکل پر نہیں آیا تھا، اس لیے کہ اس حملے سے تباہ شدہ تمام گاڑیوں کے مالکان مل گئے تھے، جبکہ خودکش بمبار کی موٹرسائیکل نہیں ملی تھی۔

اسی دوران پولیس نے کچھ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی لیکن باقاعدہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

اسٹیشن ہاؤس آفیسر ایئرپورٹ انسپکٹر محمد جمیل نے ڈان کو بتایا کہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی اب دہشت گردی سے متعلق تمام کیسز کی تفتیش کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’گریسی لین بم دھماکے کیس میں اب مقامی پولیس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘

جب ایک اور سینئر پولیس آفیسر سے یہ سوال کیا گیا کہ آخر یہ تیسرا کیس بھی پولیس اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی جانب سے داخل دفتر کیوں کردیا گیا ہے تو انہوں نے کہا ’’جب بھی پولیس کوئی سراغ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ عارضی طور پر ایسے کیس کو غیرحل شدہ قرار دے دیتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر پولیس خودکش حملے کے کیس سے منسلک کسی قسم کی گرفتاری کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کیس کی فائل دوبارہ کھل جائے گی اور دوبارہ اس کی تحقیقات شروع ہوجائیں گی۔‘‘

پولیس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت دہشت گردی کی لعنت کی جانچ پڑتال کرناچاہتی ہے اور ایسے کیسز کی تیز رفتار تحقیقات کو اہمیت دیتی ہے تو اس کوچاہیے کہ وہ پولیس کے تحقیقاتی شعبے کو بہتر بنائے اور پولیس کو سیاست سے پاک کرے۔دوسری صورت میں آنے والے دنوں میں مجرمانہ اور دہشت گردی سے متعلق غیرحل شدہ کیسز کی تعداد بڑھتی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں