کیا ہم جھوٹ پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں؟

16 جولائ 2015
بغیر سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر ہر طرح کی معلومات پھیلانے والے لوگوں کے ذہنوں پر حاوی ہونا بہت آسان ہے۔ — خدا بخش ابڑو۔
بغیر سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر ہر طرح کی معلومات پھیلانے والے لوگوں کے ذہنوں پر حاوی ہونا بہت آسان ہے۔ — خدا بخش ابڑو۔

قارئین، اس باپ بیٹے کی کہانی تو آپ نے سنی ہوگی جو ٹھگوں کے مسلسل جھوٹ کا شکار ہو کر اپنی بھیڑ کو بھیڑیا سمجھ کر جنگل میں چھوڑ آئے اور یوں ٹھگوں نے ان کی بھیڑ ہتھیا لی۔

پہلے پہل ٹھگوں نے ان کے دل میں شک کا بیج بویا کہ وہ جانور جسے وہ بھیڑ سمجھ کر خرید لائے ہیں وہ دراصل ایک بھیڑیا ہے۔ پھر یہ جھوٹ اس قدر دہرایا گیا کہ بالآخر وہ باپ بیٹا مان گئے اور اپنی پیاری بھیڑ سے محروم ہوگئے۔

ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باوقار شہری ہیں اور ہماری ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے، جس کی واضح تعلیمات کے مطابق یہ امر طے شدہ ہے کہ ''ایمان والوں کی نشانی یہ ہے کہ جب ان کے پاس کوئی خبر آتی ہے تو وہ پہلے اس کی تصدیق کرتے ہیں اور پھر اس کا ابلاغ۔'' یعنی جو کوئی بھی کسی غیر تصدیق شدہ بات کو آگے پھیلاتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بے ایمان ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب اقوال کی کتاب نہج البلاغہ میں ایک قول کے مطابق آپ نے فرمایا ''حق اور باطل میں صرف چار انگلیوں کا فرق ہے۔ جو کچھ اپنی آنکھ سے دیکھو وہ حق، اور جو کچھ کان سے سنو وہ باطل۔"

اس ساری تمہید کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ پرسیپشن مینیجمنٹ، یعنی خاص طرح کی معلومات کو کسی خاص مقصد کے تحت دبانا یا پھیلانا، جس کے نتیجے میں ایک مخصوص زاویہ ترتیب دیتے ہوئے کسی فرد یا گروہ کو گمراہ کرنا، سوشل میڈیا کے اس موجودہ زمانے میں غیر روایتی جنگ کا ایک نہایت مؤثر ہتھیار ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں آبادی کا ایک وسیع طبقہ سوشل میڈیا پر تحقیق کو غیر ضروری خیال کرتے ہوئے محض ذاتی پسند و ناپسند اور مذہب و ریاست کی محبت میں مبتلا ہو کر بے ساختہ و بغیر سوچے سمجھے لائک اور شیئر کے بٹن دباتا ہو، وہاں اس ہتھیار کو کامیابی سے استعمال کرنا بے حد آسان ہے۔

سوشل میڈیا پر اس طفلانہ اور خطرناک رویے کے علاوہ بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ گذشتہ دنوں یہ تحقیق ایک غیرملکی خبر رساں ادارے کی سرخی بنی کہ وسطی پنجاب میں بعض ایسے ڈیرے دار افراد موجود ہیں جو ہجوم کرائے پر فراہم کرتے ہیں۔ یعنی پہلے ایک جھوٹا معاملہ اٹھایا جاتا ہے اور بعد ازاں اس معاملے کے ذریعے فساد برپا کرواتے ہوئے مال کمایا جاتا ہے۔

ہم من حیث القوم اس حد تک سازشی کہانیوں کے اثرات کا شکار ہوچکے ہیں کہ ہمارے بعض رویے نہ صرف ہماری جہالت پسندی کے عکاس ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ہم سچ سننا چاہتے ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں کے مقبول روایتی خیالات میں سرفہرست موضوع مذہب اور حب الوطنی ہے اور فیس بک اور دیگر سوشل میڈیائی مجاہدین ہمہ وقت اس پرچار میں لگے رہتے ہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک سوائے اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے اور کوئی کام نہیں کرتے۔ اور یہ بھی کہ تمام عقلیت پسند مغربی ایجنٹ ہیں اور ان کے افکار کا مقصد صرف اور صرف وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانا ہے۔

سماجی ذرائع ابلاغ پر ہر لمحہ موجود یہ افراد جو خاص خدمت بجا لاتے ہیں، ان میں اول اول ان معجزات کی تصاویر کی تشہیر ہوتی ہے جو ان کے بقول دنیا جہان کا "بِکا ہوا میڈیا" دکھانا نہیں چاہتا۔ مثال کے طور پر چین میں کوئلے کی کان کے حادثے میں جل کر مرنے والا فرد "شاتم رسول (ﷺ)" بن جاتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی خصوصی طور پر درج ہوتا ہے کہ "یہ گستاخ شخص کرنٹ لگ کر واصلِ جہنم ہوا ہے، اس تصویر کو اِتنا پھیلا دو کہ تمام عالم اسلام کو احساس ہو جائے کہ حرمتِ رسول ﷺ پر ہمارا ایمان ہے۔ مغرب اس تصویر کو چھپانا چاہتا ہے تاکہ اسلام کی صداقت واضح نہ ہوجائے۔"

شرم کی بات ہے کہ حرمتِ رسول ﷺ جیسے حساس موضوع کو بھی جھوٹ کے ذریعے زیرِ گفتگو لایا جارہا ہے۔ دو چار دیگر مثالیں ملاحظہ ہوں۔ بادلوں کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا گیا کہ "اللہ کا معجزہ! فیصل مسجد اسلام آباد میں جمعہ کی نماز کے بعد چھا جانے والے بادلوں سے پاکستان کا نقشہ بن گیا ہے جس میں پورا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ اس تصویر کو اتنا پھیلا دو کہ مودی بھی دیکھ لے اور مان لے کہ کشمیر پاکستان کا ہے۔" (واہ! کیا طریقہ ہے کشمیر لینے کا)۔

"توے پر پکی ہوئی روٹی پر اللہ لکھا گیا، سبحان اللہ پڑھ کے شیئر کرو، شیطان ایسا کرنے سے روکے گا، بہکاوے میں مت آنا!" مرزا غالب، علامہ اقبال، اور بیچارے فراز صاحب مرحوم سے منسوب سینکڑوں جھوٹے اشعار، جھوٹی احادیث، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب جھوٹے فرامین، یہ ہمارے ملک کی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ پایا جانے والا مواد ہے۔

مذہب یا حب الوطنی بالکل بھی غلط نہیں ہے، لیکن اس کے پھیلانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا نہ صرف غلط ہے، بلکہ اس سے آپ کے مقصد کی سچائی پر بھی حرف آتا ہے۔

حیرت اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہوا کے رخ پر بہنے والے ان افراد کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کالج اور یونیورسٹی سطح کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے کل اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ یہ لوگ ہمارے متوسط طبقے کا وہ نمائندہ ہیں جو اب انٹرنیٹ کی دنیا پر موجود رہتے ہیں۔ موجودہ انٹرنیٹی پاکستانی قوم کا یہ مجموعی رجحان دیکھ کر خوف آتا ہے کہ قوموں کے مابین محدود وسائل پر جاری غیر روایتی جنگ کی اس جدید عالمی دنیا میں ہمارا مستقبل کیا ہونے جا رہا ہے؟

کیا ہم بھی ہٹلر کے زمانے کی جرمن نازی قوم بنتے جا رہے ہیں جنہیں یقین تھا کہ صرف ان کی ہی قوم کو پوری دنیا سے خطرہ ہے اور ہٹلر ہی ان کا واحد نجات دہندہ ہے؟ نازی پارٹی کے وزیر پروپیگنڈا گوئبلز نے ایک بار کہا تھا کہ ''جھوٹ کو اس قدر پھیلاؤ کہ لوگ سچ کو بھول جائیں''۔ سن 1930 کی دہائی کے جرمنی کا مزاج پڑھا جائے تو اپنے گھر سے مماثلت کے بہت سے پہلو ملتے ہیں۔

تحریر کا مقصد خوف یا اشتعال دلانا نہیں ہے، اور نہ ہی مایوسی کا اظہار ہے، بلکہ صرف اس قدر متوجہ کرنا ہے کہ ہمیں ہی یہ کیوں لگتا ہے کہ دنیا جہان کی تمام توپوں کا رخ صرف ہمارے جسمانی وجود سے لے کر ہمارے مسلک ہمارے مذہب اور ہمارے ملک پر ہے؟ کہیں ہم خود بھی تو اپنے آپ کے دشمن نہیں؟ ایک لمحہ سوچنے میں کوئی برائی تو ہے نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jul 16, 2015 05:38pm
jab sey dunya banly hey yeh kaam ho rejaa hey
AMIR Jul 17, 2015 01:55am
True! amazing analysis
RIS Jul 17, 2015 06:21am
"کیا ہم بھی ہٹلر کے زمانے کی جرمن نازی قوم بنتے جا رہے ہیں جنہیں یقین تھا کہ صرف ان کی ہی قوم کو پوری دنیا سے خطرہ ہے اور ہٹلر ہی ان کا واحد نجات دہندہ ہے؟" ایک خوفزدہ کر دینے والا خیال ہے۔ تاہم اس بات کو ماننا پڑے گا کہ چند ایک کے علاوہ ہمارے "so called" فلاسفر اور تجزیہ کار اسی قسم کے خیالات کا اظہار و پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ شرمندگی کا مقام۔ اس شاندار اور دلیرانہ تحریر پر بہت مبارک باد۔
Fahim Ahmed Jul 17, 2015 08:49am
جناب شوذب عسکری صاحب۔۔۔۔ آپ نے درست نکات اٹھائے ہیں، جیسا آپ نے بیان کیا ایسا ہی ہورہا ہے، حالانکہ اس سلسلے میں ہم سب کو احتیاط کرنا چاہیے۔۔۔ امید کرتا ہوں کہ آپ کے بلاگ کو پڑھنے کے بعد مجھ سمیت دیگر تمام سوشل میڈیا یوزرز اس حوالے سے احتیاط کے دامن کو تھامنا پسند کریں گے، اچھی تحریر کے لیے مبارکباد