سکھر: غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی طاہرہ کھوسو کے قتل کے اہم ملزم قار علی عمرانی کو جمعرات کو بالکل اُسی انداز میں قتل کردیا گیا، جس طرح انھوں نے رواں سال 19 مارچ کو جیکب آباد کے ڈنگر محلہ میں مبینہ طور پر اپنی اہلیہ کو قتل کیا تھا.

طاہرہ کھوسو کے قتل کے بعد انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور انھوں نے سپریم کورٹ سے اس معاملے کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا.

تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے خان محمد امین خان کھوسو کی پوتی طاہرہ کھوسو،جیکب آباد کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جن کی شادی وقار علی عمرانی سے ہوئی.

مقتولہ کے خاندان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست کے مطابق طاہرہ کھوسو کے والد عبدالسمیع کھوسو، بھائی ارشد محمود اور انکل محمد اقبال، 19 مارچ کو طاہرہ کے گھر گئے جہاں انھوں نے اس کے شوہر ملزم وقار کو اپنے خاندان کے 3 مردوں کے ہمراہ طاہرہ پر بدترین تشدد کرتے ہوئے دیکھا.

درخواست کے مطابق وقار، جس پر الزام تھا کہ اس کے کسی دوسری خاتون سے تعلقات ہیں، نے طاہرہ کی گردن پر گولی ماری،انھیں ہسپتال لے جایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئیں، جبکہ تمام ملزمان جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے.

طاہرہ کے خاندان کے مطابق پولیس نے ملزمان کو گرفتارنہیں کیا کیونکہ انھیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت کی جانب سے تحفظ فراہم کیا جارہا تھا.

5 اگست کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جیکب آباد کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملک ظفر اقبال اعوان کو حتمی شوکاز نوٹس جاری کیا، جس میں انھیں ملزم وقار عمرانی کو گرفتار کرکے 16 ستمبر کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا.

تاہم ملزم کو انتقامانہ کارروائی کرتے ہوئے قتل کردیا گیا.

بابا کوٹ پولیس کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ نصیرآباد کے تعلقہ تمبو کے گاؤں سردار فتح علی خان عمرانی کے کچھ رہائشیوں نے رات 3 بجے کے قریب وقار علی عمرانی کی خون میں لت پت لاش ان کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر دیکھی.

وقار علی عمرانی کو گردن پر گولی مار کر قتل کیا گیا، جبکہ لاش پر تشدد کے نشانات بھی واضح تھے.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں