سوشل میڈیا پر شرمناک حرکتیں

اپ ڈیٹ 17 اگست 2015
زیادہ سے زیادہ کلکس حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر سادہ سے خبر کو بھی سنسنی خیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ — Creative Commons
زیادہ سے زیادہ کلکس حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر سادہ سے خبر کو بھی سنسنی خیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ — Creative Commons

مداری نے چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا: "ایسا پرندہ جس کے سر پر پاؤں ہیں!"۔ بھیڑ تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ لوگ اکٹھے ہو گئے تو اس نے اپنا منجن بیچنا شروع کردیا۔ ایسے مجمعے آپ نے جگہ جگہ دیکھے ہوں گے۔ لاہور اردو بازار سے داتا دربار کی جانب جائیں تو سانڈوں کا تیل بیچنے والے ریچھ کی تصاویر کا تذکرہ کر کے لوگوں کو متوجہ کرتے پائے جاتے ہیں.

مداریوں کے ان گروں سے ہماری اکثریت آشنا ہے مگر پھر بھی وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ

وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا

باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا

ان کہانی گروں کی باتوں میں ایسی چاٹ ہوتی ہے کہ لوگ رک کر ٹھہر کر ان کی بات سنتے ہیں۔ لوگوں کو تجسس کی لاٹھی سے ہانک کر آپ کسی بھی مجمع کا حصہ بنا سکتے ہیں، لیکن کہانی گری اور مداری پن کا جو آغاز ویب جرنلزم کے آنے سے ہوا ہے، وہ اس درجہ بازاری ہے کہ پڑھنے لکھنے سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والے پریشان ہیں کہ ہمارا میڈیا ہمیں کیا دکھائے جا رہا ہے۔

صحافی، اخبار لکھنے والے، ادیب، اور شاعر کسی بھی قوم کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں، جو پھول کو بھی پتھر کی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ لوگوں کو سوچ اور راستہ دیتے ہیں۔ جب قوم کسی گمراہی کی طرف گامزن ہو تو ان کی یہ آواز لوگوں کو آنے والے خطروں سے خبردار کرتی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے سونامی نے صحافتی اقدار کو ناقابلِ تلافی زک پہنچائی ہے۔ پاکستان کے بڑے اخباروں میں سے ایک نے چند دن قبل ایک سہاگ رات کی خبر کو بھی کوریج بخشی، جس میں دلہن نے دلہا میاں کی پسلیوں پر لاتیں برسائیں۔ اور جب یہی خبر چٹپٹے مصالحے دار اخباروں کے ہاتھ چڑھتی ہے تو ویب ٹریفک کے بہاؤ کو اپنی طرف لانے کے لیے اس خبر کا رنگ کچھ ایسا ہو جاتا ہے۔

دلہن نے پہلی رات دلہا کو ایسا کیا کردیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا: تفصیلات لنک میں

یا پھر

سہاگ رات میں دلہا کی پسلیاں ٹوٹ گئی مگر کیسے؟ تفصیلات لنک میں

یا پھر

سہاگ رات میں کیا کیا ٹوٹ گیا، ایک سچی کہانی: تفصیلات لنک میں

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بڑی نیوز ویب سائٹ کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ "اس ویب سائٹ والوں کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، نرس نے آ کر مبارکباد پیش کی اور کہا مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں۔"

پڑھیے: میڈیا کے چٹخارے

عام سی خبروں میں ایک خاص قسم کی سنسنی پیدا کرنے کے لیے ایسے جملوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔

ایسی خبر جس کو سن کر آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی

ایسی خبر جو تاریخ میں پہلے نہ سنی ہو گی

ایسا کام جو کسی نہ کیا ہو گا

غیر ملکی اخبارات سے بھی یہ ظالم ایسی خبریں ہی اٹھاتے ہیں جن کا مقصد سوائے ڈگڈگی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایسی خبریں جب یہ اردو ویب سائٹس اٹھاتی ہیں، تو ان کا حلیہ کچھ یوں ہوجاتا ہے:

قوانزھو میں شادی کے نام پر انسانیت سے گری حرکتیں

کاشی میں شراب نوشی کا مقابلہ، بیہودگی اپنی انتہاء پر

برازیل میں حیا باختہ عورتوں کا اجتماع، انسانیت شرمندہ

کینیڈا میں لباس سے عاری حوا کی بیٹیاں، سر شرم سے جھک گئے۔

ان تمام خبروں کے گرافکس پر جیسے ہی کلک کر کے ویب سائٹ تک پہنچا جاتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل خبر کچھ اور تھی، جبکہ سوشل میڈیا پر کچھ اور، تاکہ لوگ صرف تجسس کا شکار ہو کر کلک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

میرے بھائی جانتے ہو تم کیا ہو اور کیا کر رہے ہو؟ تم ایک ادبی دہشت گرد، صحافت کے نام پر تہمت، اور ادب کے نام پر ایک داغ ہو۔

مزید پڑھیے: میڈیا کا آئی ٹیسٹ

باہر کی دنیا سے علمی، ثقافتی اور قابلِ تقلید عادات، واقعات اور حالات کا ذکر کرو۔ ان کے محاسن بتا کر عمل پیروی کی طرف رغبت دو، اور کسی اچھی سوچ کو پنپنے میں مدد کرو۔ یہ کیا بیہودگی اور لچر پن لکھ رہے ہو؟ یہ نہ ہی سنسنی ہے، نہ ہی خبر ہے، نہ ہی کوئی اچھوتی معلومات ہے اور نہ ہی کسی آگہی کی طرف پیش رفت۔ بلکہ یہ صرف اور صرف تمہارے ذہن کا گند ہے جسے تم سوشل میڈیا اور صحافت میں پھیلا کر اس تالاب کے اجلے پانی کو گندا کر رہے ہو۔

اکثر آن لائن اخبارات جو رپورٹنگ اور صحافت کر رہے ہیں وہ جرنلزم کی کسی قسم میں بھی نہیں آتی۔ میرے خیال میں یہ ایک نئی قسم ہے جسے "اسٹوپڈ جرنلزم/رپورٹنگ" کا نام دیا جا سکتا ہے۔

ریپ کی شکار لڑکی کو اسقاطِ حمل کی اجازت نہ ملی، چنانچہ اسے زیادتی کے نتیجے میں ہونے والے بچے کو جنم دینا پڑا، لیکن سوشل میڈیا پر خبر ایسے چلائی گئی جیسے کہ یہ غیر اخلاقی حرکت 11 سالہ بچی نے برضا و رغبت کی ہو.

انتہائی احتیاط سے منتخب الفاظ کی چاشنی کی بجائے بازاری مصالحوں کی کھٹاس سے سارا مزا کرکرا کرنے والوں سے کوئی پوچھنے والا بھی ہے کہ نہیں؟ ابھی چند روز قبل وسیم اکرم صاحب کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا، سوشل میڈیا پر پہلا تاثر یہ پھیلا کہ شاید یہ کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہے، جب کہ ٹریفک میں کسی کا غصہ میں آجانا بیانات سے بالکل باہر کردیا گیا۔

حقائق سے کوسوں دور اس معاملے کو حقیقت بنا کر پیش کرنے میں ہمارے آن لائن اخبارات پیش پیش تھے، اور اس میں وسیم اکرم کے اپنے تردیدی بیانات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تاکہ خبر کو مزید سنسنی خیز بنا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی ویب سائٹ تک لا کر پیسے کمائے جائیں۔

یہ بات بالکل قابلِ فہم ہے کہ آج کے دور میں جب ایک ویب سائٹ کی کمائی مکمل طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ اس ویب سائٹ کو کتنے لوگ وزٹ کرتے ہیں، لہٰذا انوکھی و اچھوتی چیزیں اپنی ویب سائٹس پر شائع کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا جائز ہے۔ لیکن ان اچھوتی اور انوکھی چیزوں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے جس طرح کی سرخیوں اور الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے، وہ کسی بھی طرح صحافتی اقدار کے مطابق نہیں، بلکہ قابلِ مذمت ہے۔

ایک خبر جو افریقی ملک برونڈی کے سابق آرمی چیف کے قتل کے متعلق تھی، اس میں شخصیت کے چہرے کو چھپا کر سرخی کچھ اس طرح دی گئی، کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کلک کر بیٹھیں.

آپ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کی ویب سائٹ تک آئیں، تو آپ اپنے مواد کو معیاری بنائیں، بازاری کیوں بناتے ہیں؟ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چٹپٹے سوشل میڈیا گرافکس اور مصالحے دار سرخیاں شاید دیکھنے میں بے ضرر لگتی ہوں، لیکن یہ چیزیں غیر محسوس انداز میں لوگوں کی ذہنیت پر نظرانداز ہوتی ہیں۔ صحافت کبھی رائے عامہ کی درستی اور عوام کو آگاہ کرنے کا نام ہوا کرتا تھا لیکن ان ویب سائٹس نے تو صحافتی اقدار کو دفن کر کے رکھ دیا ہے۔

پڑھیے: پاکستانی چینلز کی بناکا گِیت مالا ہیڈ لائنز

مجھے امید ہے کہ ان اخبارات کے دفاتر میں کوئی تو سوچنے والے لوگ موجود ہوں گے، پاکستانی اسٹیج ڈرامہ جیسے اپنی موت مرا تھا، کیا ایسے ہی اخبارات دم توڑنے والے ہیں؟ کہیں تو کوئی حد مقرر کرنا ہوگی، غیرملکی خبروں میں سے اچھی خبروں کا انتخاب بھی تو کیا جا سکتا ہے، صرف سستی اور گھٹیا خبریں ہی کیوں؟

صرف اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ کلکس ملیں، پھر بھلے ہی اس سے گندی ذہنیت کی آبیاری ہو، اور عوام میں مزید کوفت پھیلے؟ صحافت نے کئی دہائیوں کی آمریت، پابندیوں، اور سینسرشپ سے کیا اس دن کے لیے آزادی حاصل کی تھی؟ آئیں جواب جاننے کے لیے کسی نہ کسی لنک پر کلک کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (28) بند ہیں

Ameer Aug 17, 2015 07:05pm
you are right! it seems that they are educated beggars and begging to visit their websites. Really the have very dirty and cheap mentality. i unsubscribed already that 3 Facebook pages, 1- Urdupoint 2- Daily Paikistan 3- Javed Chaudhry
tahirrazzaqch Aug 17, 2015 08:05pm
ma sha Allah bohat khushi hoi shukar hy kisi ko tou khyal aeya is par likhne ka yqeen manyn yahan logon ko mout bhol chuki hy matlob o maqsod sirf paisa ban chuka khuda taala hum par reham farmaye sach Awor sahafat tou lagta hy kahin kho chuki hy
Dr.Afzaal Malik Aug 17, 2015 08:11pm
ایسی حرکتیں صرف روزنامہ پاکستان کے نام پر ہوتی ہیں۔ اگر وہ اسکی تردید نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے وہ اس معاملے میں براہ راست ملوث ہیں۔ ایسی حرکتیں کرنا کہ لوگ انکی بے تکی اور بکواس خبر پڑھنے کیلئے لازمی کلک کریں اور ان کو اس کا ناجائز فائدہ ہو انتہائی بھونڈی حرکت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انکے پراڈکٹ میں کچھ نہیں صرف مصالحہ بلکہ گرم مصالحہ پر چل رہے ہیں۔ ایسی حرکتیں نہ کریں تو کون ان کو اہمیت دیگا؟ بہرحال ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
Wasim Javed Aug 17, 2015 11:39pm
My Words. Excellent!!!
Imran Aug 18, 2015 05:31am
پوری قوم اس چورن سے مستفید ہو رہی ہے!!!!
khushnood zehra Aug 18, 2015 09:31am
بہت اچھی نشاندہی کی گئی ،افسسوسناک ہے یہ صحافت کی اقدار بھلائے محظ ٹریفک کیلئے ایسی سنسی اور معنی خیز انداز میں خبر پیش کرتے ہیں جس میں خبریت کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے
Asif khan Aug 18, 2015 09:43am
Enhi Shakoko shubhat ki wajah se ham Islam se dor hoty ja rahy hai? par es mai en logu ka koi qasoor nahi, q k pakistani Quom mostly uneducated hai.Quom k hukmaran har sal chota sa hissa Taleem k buget par mukhtas kar deti hai. takey ziada see ziada log unparh (uneducated) rahy.aur wo vote b bager soch k cast kary, or aisey website par foran click kary, or enkey page ko like kary, ab URDU POINT, Daily pakistan,Javed chaudhry, wageera k likes dekho zara
فہیم احمد Aug 18, 2015 10:17am
گھٹیا ترین اردو نیوز سائٹ http://dailypakistan.com.pk/ اور افسوس کے مجیب الرحمٰن شامی اس کے ایڈیٹرانچیف ہیں
رحمت علی Aug 18, 2015 10:52am
رمضان بھائی ماشااللہ بہت خوب لکھتے ہیں۔ موجودہ تحریر میں انہوں نے عوام کے دل کی بھڑاس نکالی ہے-یقین مانے دل خوش ہو گیا رمضان بھائی - اور "روزنامہ پاکستان" کو چاہیے کہ وہ اپنا حکمت والا دواخانہ کھول لیں۔ اور اپنی بکواس ترین حرکت سے باز آجائیں۔ پیسے کمانے کے چکروں میں لوگوں کے زہن میں گندگی نہ ڈالیں۔ میرے خیال میںحکومت کو چاہے کہ وہ :روزنامہ پاکستان" کے خلاف ایکشن لے۔ اور عوام کو چاہیےکہ کم از کم ان کے پیج کو Unlikeکر دیں۔میں نے آج رمضان بھائی کی تحریر پرھ کر "روزنامہ پاکستان" Unlike کر دیا ہے-شکریہ
Ashar Aug 18, 2015 11:44am
Spot on! Its high time that a regulatory authority on likes of PEMRA should be established for Social media. However, PEMRA also till now has failed to monitor and control the content on electronic media, its authenticity, relevance and above all its impact on general public.
Libra Aug 18, 2015 12:53pm
pleased to read that we still have sensible people....well done
عائشہ بخش Aug 18, 2015 02:50pm
@Dr.Afzaal Malik صرف روزنامہ پاکستان ہی نہیں بلکہ اردو پوائنٹ،اور کوئٹہ کا روزنامہ قدرت بھی اس میں برابر کے مجرم ہیں۔ ان کے مدیران کو احساس کرنا چاہے کہ عوام بیوقوف نہیں۔ اس سے ان کے ادارے کا وقار برباد ہورہا ہے ۔
عائشہ بخش Aug 18, 2015 02:54pm
بہت اچھی تحریر تھی۔ آپ نے واقعی ہی ایک اچھے مسئلہ کی نشان دہی کی ہے ۔ مجھے خود کئی بار ان کی وجہ سے ذہنی اذیت اٹھانا پڑی ہے ۔ ان اخبارات کو چاہے کہ وہ زر صحافت بند کردیں۔ ویسے میں نے ان کا حل یہ کیا تھاکہ ان کو بلاک کردیا تھا۔ اب میری ٹایم لائن میں بڑا سکون ہے ۔ ۔۔۔۔ ان صحافتی دہشت گردوں کے بعد۔۔۔۔
Raja Aug 18, 2015 03:27pm
You have raised very genuine issue...excellent, I alway see such type of cheap news on facebook by Daily Pakistan and Javed Choudhri's websites.
M Zohaib Aug 18, 2015 03:31pm
Shame Shame Daily Pakistan and Urdu Point.
Rahim Sabir Aug 18, 2015 03:34pm
Well done sir,
faheem Aug 18, 2015 04:04pm
جناب اس "اسٹوپڈ جرنلزم/رپورٹنگ" کو آج کل SEO کہا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ search engine optimization کے نام پر ہوتا ہے۔ اپنی ویب سایٹ کی ریٹنگ بڑھانے کے لے کچھ گھٹیا ویب اڈمن اس طرح سے ہے لوگوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔
Zainab Khan Aug 18, 2015 08:53pm
رمضان بھائی، لگتا ہے آپ دنیا کا مشہور ترین اخبار ڈیلی میل آن لائن نہیں پڑٖھتے اور کوپن ہیگن میں رہ کر بھی چیچہ وطنی میں بستے ہیں۔ میں بھی جرنلزم کی ایک طالبہ ہوں اور موجودہ دور میں کے جرنلزم کے تقاضے وہ نہیں جو آج سے پچاس سال قبل تھے۔ہیڈ لائنز میں سنسنی ڈال کر آپ ویب سائیٹ کو ایک بار چلا لیں گے لیکن ہر بار نہیں۔جن ویب سائٹس کا آپ نے ذکر کیا میں وہ پچھلے دوسال سے پڑھ رہی ہوں اور میرے لئے حیرت کی انتہا یہ ہے کہ یہ ویب سائٹس دن بدن ترقی کررہی ہیں یعنی اب لوگ پڑھنے کے لئے کچھ اور مانگ رہے ہیں۔دنیا بھر میں جرنلزم کا معیار بدل رہا ہے اور اسی کے مطابق لوگوں کے تقاضےبھی مختلف ہیں۔اگر یہ ویب سائٹس لوگوں کے دلوں اورمعیار پر نہیں اتریں گی تو ختم ہوجائیں گی لہذا آپ اپنا دل دکھی نہ کریں۔لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو جان لیں کہ لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے اور ہمیں تحقیق کی ضرورت ہوگی جس سے ہمارا معاشرہ کوسوں دور ہے۔
رمضان رفیق Aug 18, 2015 09:12pm
@tahirrazzaqch شکریہ
رمضان رفیق Aug 18, 2015 09:18pm
@faheem میرے خیال میں سرچ انجن اوپٹامائزیشن کچھ اور چیز ہوتی ہے ، اگر ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ لوگ ایسی چیزوں کے متلاشی ہیں اس لئے یہ ادارے ایسی چیزیں چھاپتے ہیں۔ اگر اس کو حقیقت کو مان بھی لیا جائے کہ لوگ ایسی چیزوں کے خواہشمند ہیں تو ایک ذمہ دار ادارے کو لوگوں کی خواہش کا کس طرح احترام کرنا چاہیے۔
رمضان رفیق Aug 18, 2015 09:31pm
آپ دوستوں کے تبصرے پڑھ کر بہت اچھا لگا، کہ ابھی ایمانداری اور محنت سے مسلسل آگے بڑھنے کے فلسفے پر یقین رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ان لوگوں کے ایک ایک مضمون پر تبصرہ کرنے، شئیر کرنے اور پسند کرنے والوں کی بہت زیادہ تعداد ہے جو ہماری قوم کے عمومی رویوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن آپ دوستوں کے الفاط پڑھ کر لگا ابھی میری طرح سوچنے والے بھی کم نہیں۔۔۔۔آپ کی پسندیدگی اور پذیرائی کا شکریہ
Amjad Ali Baloch Aug 19, 2015 10:20am
@Zainab Khan aap ney bulkul sahi arz kya hay zara aap in logon key cell phone ko to chek karine pata chaljahey ga k kon kitney pani me hay
shazia Aug 19, 2015 10:35am
very well said Ramzan Sahab! this has really become an issue worth pointing out. In Pakidtan, Social media or web is considered as something for educated people. and whats happening on it is really a shame! There has to be some law in order to cancel the license of such websites or there could be some penalty raised in order to punish them somehow.
shani Aug 19, 2015 11:00am
Bohat Acha likha bahi aap ne , me aap ki baat se itefaak karta hun ye websites bilkul sirf apni traffic barhane k liye is kisam ke behoda aur ghatia hathkande istimal karte han, heading kuch hoti ha khabar par click karo to is ke bilkul ult hota ha. In ko parh kar ye nahi lagta ke ye news media ha balke ye lagta ha ye jinsi media ha. aap in logo ki dhitai dakhian, aap ke is blog ke jawab me ye likha ha jis me bajae apni galti manne ke dithai dikha rahe han. Link neche ha http://dailypakistan.com.pk/national/18-Aug-2015/257464
ایم شاہد یوسف Aug 19, 2015 06:05pm
بہت ہی خوبصورت لکھا ہے آپ نے اور ایک سوشل برائی جو سوشل میڈیا کی میں زہر کی طرح پھیل گئی ہے کی نشاندہی کی۔۔روزنامہ قدرت، پاکستان، اردو پوئنٹ اور اس جسیے دیگر اخبارات اور بلاگز پیسے کمانے کے چکر میں یہ حرکتیں کرتے ہیں اور ہم پتہ ہونے کے باوجود پھر بھی انکی سائٹس ویزٹ کر کے ان کے کام کو مزید آسان بناتے ہیں
Ramzan Rafique Aug 19, 2015 09:33pm
@Zainab Khan Paiari bhan khoush raheen. ....g daily mail mn nn perhta. ...aur extrablad. BT.aur b buhat sary akhbar nn perhta. ....mery khail mien jo akbar jis muashary mn ho us ki tahzeeb follow kerni chahiy. ...warnA bhan g yahan is dais mn aisy akbar b niklty hn Jin ka tazkra aap say munasib nn
Ejaz Alam Aug 20, 2015 10:54am
Bilkul drust kaha...javed ch jese sahafi b apni website per aise hi headings ke sath traffic laate hein....which is very wrong...khabar mein kuch hota nai bus heading hi attractive bnane per zor hota hy sub ka..
جارج خمینی Aug 21, 2015 10:20am
پاکستان کے تمام میڈیا گروپس تعلیم و ترقی کے بجائے لچر پنا پھیلا رہے ہیں۔ نہ علم کی بات نہ کوئی تحقیق موضوعات ہی لچر ہوتے ہیں تو ان پر ہونے والا کام تو اس سے زیادہ لچر ہے۔ یہ ہیں مسلمان ملک کے پاشندے۔ صرف رمضان میں اللہ رسول پورے سال قصور ہی قصور