پشاور: 'دہشتگرد طویل جھڑپ میں الجھانا چاہتے تھے'

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2015
سیکیورٹی آفیشلز کےمطابق حملہ آوروں نے ایئر کیمپ کے مرکزی دروازے پر موجود گارڈز پر دستی بم پھینکے—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
سیکیورٹی آفیشلز کےمطابق حملہ آوروں نے ایئر کیمپ کے مرکزی دروازے پر موجود گارڈز پر دستی بم پھینکے—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

پشاور: ماہرین کا خیال ہے کہ ماضی کے برعکس، پاکستان ایئر فورس کے بڈھ بیر کیمپ پر حملہ کرنے والے دہشت گرد ایک مختلف حکمت عملی کے ساتھ آئے اور وہ سیکیورٹی فورسز کو طویل جھڑپ میں الجھائے رکھنا چاہتے تھے.

پشاور کے بڈھ بیر ایئر کیمپ میں حملہ آوروں کی لاشوں اور گولہ بارود کی جانچ پڑتال کرنے والے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کے سربراہ شفقت ملک کا کہنا تھا، "پہلی مرتبہ حملہ آوروں نے ایک بالکل مخلتف حکمت عملی اختیار کی اور کسی نے بھی خود کش جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی."

شفقت ملک کے مطابق ماضی میں حملہ آور خود کش جیکٹس پہنا کرتے تھے، جبکہ جس مقدار میں وہ گولہ بارود لائے تھے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک طویل جھڑپ کے لیے آئے تھے.

بی ڈی ایس سربراہ کا کہنا تھا کہ جائے وقوع سے حملہ آوروں کے 2 موبائل فونز بھی ملے ہیں۔

مزید پڑھیں:ایئر فورس کیمپ پر طالبان کا حملہ،29 افراد ہلاک

واضح رہے کہ ماضی میں خصوصاً دفاعی تنصیبات پر کیے جانے والے حملوں میں دہشت گرد خود کش جیکٹس ضرور استعمال کرتے تھے۔

گذشتہ برس 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں بھی دہشت گردوں کی جانب سے خود کش جیکٹ کا استعمال کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً 150 کے قریب طلباء اور اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے۔

اپنے ایک بیان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بڈھ بیر حملے میں 14 عسکریت پسندوں نے حصہ لیا جو 2 گاڑیوں میں وہاں پہنچے۔

حملے کا آغاز صبح 5 بجے کے قریب کیا گیا اور لوگوں نے کیمپ کے اندر زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔

پاک فوج نے تصدیق کی کہ حملے میں پی اے ایف کے 22 افراد، کیپٹن اسفند یار بخاری سمیت 3 سپاہی اور 4 شہری ہلاک ہوئے جبکہ 25 سے زائد افراد زخمی بتائے گئے۔

حکام کے مطابق جائے وقوع سے بھاری اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا، عسکریت پسندوں نے اے کے 47 رائفلز، راکٹ پروپیلڈ گرنیڈ -7، اینٹی ٹینک گرنیڈ لانچر، دستی بم، دھماکہ خیز آلات اور لوڈڈ میگزین کے ساتھ بھاری بیگز لٹکا رکھے تھے۔

سیکیورٹی آفیشلز کےمطابق حملہ آوروں نے ایئر کیمپ کے مرکزی دروازے پر موجود گارڈز پر دستی بم پھینکے۔

ان کے خیال میں حملہ آوروں نے میس اور رہائشی کوارٹرز تک پہنچنے کے لیے دوسری دفاعی لائن توڑنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

ایک آفیشل کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور حملہ آوروں کو مشینی نقل و حمل کے سیکشن کے قریب دوسری دفاعی لائن تک محدود کردیا گیا۔

حملہ آوروں کی لاشیں بھی مشینی نقل و حمل کے سیکشن کے قریب پائی گئیں ۔

مذکورہ آفیشل کا کہنا تھا کہ اگر وہ (حملہ آور) رہائشی کوراٹرز تک پہنچ جاتے تو یہ مزید تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔

زیادہ تر ہلاکتیں مرکزی مسجد میں ہوئیں جہاں دہشت گردوں نے نمازیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا۔

سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے ہلاک ہونے والے 13 حملہ آوروں کی لاشوں کو تحویل میں لے لیا گیا۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ شفقت ملک کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے فنگر پرنٹس لے لیے گئے ہیں جبکہ ان کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ "فنگر پرنٹس کی مدد سے ماہرین انھیں آسانی سے شناخت کرسکیں گے"۔

مزید پڑھیں:'پشاور حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی'

دو درجن سے زائد حملہ آوروں کی دو گاڑیوں میں آمد اور پاک فضائیہ کے ایئر بیس کیمپ پر حملے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کی انٹیلی جنس تیاری کو بے نقاب کیا ہے، جبکہ دہشت گردوں نے کیمپ تک پہنچنے کے لیے مرکزی سڑک کا استعمال کیا جہاں پولیس کی چوکیاں موجود ہیں۔

واضح رہے کہ یہ کیمپ ایک گنجان آباد علاقے میں قائم ہے جہاں افغان مہاجرین بھی اچھی خاصی تعداد میں رہائش پذیر ہیں، جبکہ متعدد افغان جہادی کمانڈوز کے بارے میں بھی خیال ہے کہ وہ یہاں کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔

کیمپ تک حملہ آوروں کی آسان رسائی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حساس دفاعی ہاؤسنگ تنصیبات، تربیتی سہولیات اور خاندانوں کو مناسب طریقے سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔

بڈھ بیر کا علاقہ امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے بدنام رہا ہے، یہ علاقہ پشاور کے فرنٹیر ریجن سے قریب ہے اور مجرموں اور خطرناک دہشت گردوں کا گڑھ تصور کیا جاتا رہا ہے۔

مقامی لوگوں نے ماضی میں عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے مقامی لشکر قائم کیا تھا لیکن یہ علاقہ اب بھی غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے.

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 19, 2015 12:36pm
WHY DONT YOU SET UP SURVEILANCE SYSTEMS -THIS IS NOT 1915. THIS IS 2015. HERE GOVERNMENT HAS ORDERED TO USE CCTV FOOTAGE CAMERAS IN MINIBUSSES AND INTERCITY BUSSES AND EVERY SHOP. CSN NOT ES AFFORD TO INSTALL SUCH THINGS AT OUR BIG INSTALMENTS EVEN?
Zia kakar Sep 19, 2015 09:10pm
If government wants peace in pakistan expel afghans out of Pakistan it's must and the right time to do
Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Sep 20, 2015 05:06pm
@Zia kakar حملہ اوروں کی شناخت ھوچکی ھے تمام کا تعلق پاکستان سے ھے نہ کوئی انڈین نہ افعانی سب پاکستانی ھیں افعان مہاجرین کو واپس جانا چاہئے اپ کی بات درست ھے. لیکن افعان مہاجر ھیں پاکستان میں انکو اقوام متحدہ کا ادارہ امداد دیتا ھے اس سال 2015 کو انہیں واپس جانا تھا لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین 2 سال مزید پاکستان میں رہنے کی اجازت دی ھے حکومت کو چاہئے کہ سرحد پر کنٹرول کریں