کراچی: سماء ٹی وی کی گاڑی پر فائرنگ

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2015
جس وقت فائرنگ ہوئی گاڑی میں کوئی موجود نہیں تھا ۔۔۔ فوٹو: اسکرین گریب
جس وقت فائرنگ ہوئی گاڑی میں کوئی موجود نہیں تھا ۔۔۔ فوٹو: اسکرین گریب

کراچی: سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک اور نجی ٹی وی چینل کی سیٹلائیٹ وین پر فائرنگ کی گئی۔

سماء ٹی وی کے مطابق ان کی ڈیجیٹل سیٹلائیٹ نیوز گیدرنگ (ڈی ایس این جی) وین پر لیاقت آباد 10 نمبر میں پل کے نیچے فائرنگ کی گئی۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈی ایس این جی کے ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی پر 5 سے 6 فائر کئے گئے۔

سماء ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ جس وقت گاڑی پر حملہ کیا گیا اس وقت گاڑی میں عملہ موجود نہیں تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گاڑی کے ساتھ کیمرہ کامران الدین اور ڈرائیور سلیم تعینات تھے۔

فائرنگ سے جانی نقصان نہیں ہوا البتہ گاڑی کو نقصان پہنچا۔

سماء ٹی وی کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان نے فائرنگ کی، فائرنگ کے بعد ملزمان با آسانی فرار ہوگئے۔

فائرنگ سے ڈی ایس این جی وین کے پیچے کا شیشہ ٹوٹ گیا جبکہ ٹائر گولی لگنے سے پنکچر ہوا۔

سماء کے کیمرہ مین کامران الدین نے بتایا کہ حملہ آوروں کی فائرنگ کے بعد انہوں نے ڈرائیور کو گاڑی تیز چلا کر محفوظ مقام پر لے جانے کا کہا، حملہ آروں نے ڈی ایس این جی پر پیچھے سے فائرنگ کی۔

کامران الدین نے بتایا کہ ایک شخص وہاں سے عید کے حوالے سے قربانی کا بکرا لے کر جا رہا تھا اس بکرے کو گولی لگی، جس سے بکرا مر گیا۔

حملہ ہونے کے فوری بعد لیاقت آباد 10 نمبر پر پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد پہنچی۔

سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے جائے وقوع سے شواہد جمع کرنا شروع کیے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سینٹرل مقدس حیدر نے جائے وقوع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام پر کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کی فوٹیج حاصل کی جائے گی۔

سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور خان سیال نے سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ غلام حیدر جمالی اور ایڈیشنل آئی جی کراچی سے رپورٹ طلب کرلی.

سہیل انور خان سیال نے فائرنگ میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے.

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی.

حملوں کے یہ واقعات ایسے موقع پر سامنے آرہے ہیں جب کراچی پولیس اور رینجرز حکام نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ شہر میں جرائم کی شرح میں 60 سے 70 فیصد کمی آئی ہے۔

کراچی میں ستمبر 2013 میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا جس میں پہلے مرحلے میں لیاری میں گینگ وار کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ اس کے بعد پورے شہر میں کارروائیاں تیز کر دی گئیں۔

رواں برس آپریشن میں بہت تیز آئی ، کالعدم شدت پسند تنظیمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں میں موجود جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا جبکہ زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروہوں کو بھی قانون کی گرفت میں لانا شروع کیا گیا۔

خیال رہے کہ 11 روز قبل 9 ستمبر 2015 کو نارتھ کراچی کے سیکٹر 11C میں سینئر صحافی آفتاب عالم کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا، بعد ازاں پولیس نے صحافی کے قاتل گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔

سندھ رینجرز نے بھی آفتاب عالم کی ہلاکت کے بعد صحافیوں پر حملوں کا نوٹس لینے کا دعویٰ کیا تھا۔

رینجرز کے اعلامیے میں ترجمان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سازش میں ملوث عناصر کو جلد بے نقاب کیا جائے گا۔

آفتاب عالم کی ہلاکت سے ایک روز قبل ہی نجی نیوز چینل جیو کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی تھی جس سے ایک سیٹلائٹ انجئیر ہلاک اور ایک انجنئیر زخمی ہوا تھا۔

جنوری 2014 میں نجی ٹی وی ایکسپریس کی سیٹلائیٹ وین پر فائرنگ کی گئی تھی، جس سے گاڑی میں سوار ڈرائیور ، ٹیکنیشن اور گارڈ ہلاک ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس مشہور صحافی حامد میر کو بھی کراچی میں ہی قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، ان پر جناح ائر پورٹ سے شاہراہ فیصل پر نکلتے ہوئے فائرنگ کی گئی تھی، البتہ کئی گولیاں لگنے کے باوجود خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے تھے.

قبل ازیں جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کو بھی کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں قتل کیا گیا تھا البتہ ان کے قتل کے مجرموں کی نشاندہی ہو گئی تھی جن کو بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جبکہ ان مجرموں میں سے ایک فیصل عرف موٹا 11 مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے گرفتار کیا گیا تھا.

امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو بھی 23 جنوری 2002ء میں کراچی میں اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا.

تبصرے (0) بند ہیں