’15 سال‘ کی عمر میں قتل، مجرم کو پھانسی

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2015
سرگودھا کے انصر اقبال نے 1994 میں قتل کیا تھا...فائل فوٹو
سرگودھا کے انصر اقبال نے 1994 میں قتل کیا تھا...فائل فوٹو

لاہور: ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں سزائے موت کے قیدی انصر اقبال کو پھانسی دے دی گئی، جن کا دعویٰ تھا کہ گرفتاری کے وقت ان کی عمر 15 برس تھی.

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مجرم انصر کا کہنا تھا کہ اسے اور اس کے دوست کو 16 سال قبل اپنے پڑوسی صفدر علی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جسے 9 جون 1994 کو قتل کیا گیا۔

انصر اقبال کا دعویٰ تھا کہ جس وقت انھیں گرفتار کیا گیا تھا ان کی عمر 15 سال تھی جبکہ ان پر لگائے جانے والا قتل کا الزام بھی جھوٹا ہے۔

مقتول کے خاندان کا کہنا تھا کہ انصر نے کرکٹ میچ میں جھگڑے کے دوران صفدر علی کو قتل کیا تھا جبکہ انصر کاموقف تھا کہ پولیس نے اس کے گھر سے اسلحہ برآمد کرکے اسے جھوٹے کیس میں پھنسایا تھا۔

برطانیہ کی قانونی مدد فراہم کرنے والے ادارے کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ عدالت کو وہ تمام دستاویزات فراہم کر دی گئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جس وقت انصر سے مبینہ جرم سرزد ہوا اُس وقت وہ کم عمر تھا،تاہم عدالت نے پولیس افسر کے اس بیان کو فوقیت دی جس میں کہا گیا کہ وہ تقریباً 20 سال کا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج بھلوال نے قتل کے جرم میں 27 مئی 2015 کو انصر اقبال کو پھانسی دینے کی تاریخ مقرر کی تھی، تاہم مجرم کے اہلخانہ کی جانب سے دائر درخواست پر عدالت نے پھانسی عارضی طور پر موٴخر کردی تھی۔

بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے مجرم کو پھانسی دینے کے لیے 29 ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔

خیال رہے کہ رواں برس 4 اگست کو بھی اسی طرح کے ایک اور کیس میں مجرم شفقت حسین کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

2004 میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے شفقت کو سات سالہ عمیر کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پرپھانسی کی سزا سنائی تھی۔

عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ کا کہنا تھا کہ ایک رہائشی عمارت ندیم آرکیڈ کے چوکیدار شفقت نے تاوان کیلئے عمیر کو اغوا کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا۔

سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے شفقت کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

دسمبر، 2007 میں سپریم کورٹ نے ان کی نظر ثانی درخواست جبکہ صدر نے جولائی ، 2012 میں ان کی رحم کی اپیل مسترد کی۔

شفقت حسین 2012 سے سزائے موت سے بچتے آ رہے تھے کیونکہ ان کے اہل خانہ کا دعوی تھا کہ قتل کے وقت شفقت کی عمر صرف 14 برس تھی اور نابالغ ہونے کے باعث سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔

تاہم ، بعد میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جیل ڈاکٹر کے حوالے سے بتایا تھا کہ شفقت حسین قتل کے وقت بالغ تھے اور کسی بھی مرحلے پر ان کی کم عمری کا نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شفقت حسین کے کیس کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی اس معاملے پر سیاست کی جانی چاہیے۔

اس تنازع کی وجہ سے شفقت کے ڈیتھ وارنٹ چار مرتبہ معطل کیے گئے اور بلا آخر جیل حکام کی درخواست پر اے ٹی سی-تھری نے 27 جولائی کو پانچویں مرتبہ ڈیتھ وارنٹ جاری کیے، جس کے بعد انہیں 4 اگست کی صبح پھانسی دی گئی۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت (13-2008) نے سزائے موت پر غیراعلانیہ پابندی عائد کررکھی تھی تاہم سانحہ پشاور کے بعد اس پر ایک مرتبہ پھر عمل درآمد شروع ہوا۔

پہلی پھانسی 19 دسمبر 2014 کو فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں 2 مجرموں عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان اور ارشد مہربان کو دی گئی، دونوں مجرموں پر سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کا الزام تھا۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی جانب سے سزائے موت کی بحالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعدد بار پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دسمبر 2014 میں حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اعداد و شمار جمع کروائے گئے تھے جس کے مطابق پاکستان میں سزائے موت کے7 ہزار 135 قیدی موجود ہیں، جن میں سے پنجاب کے 6 ہزار 424، سندھ کے 355، خیبر پختونخوا کے 183، بلوچستان کے 79 اور گلگت بلتستان کے 15 سزائے موت کے قیدی شامل ہیں۔

سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد سے ملک کی مختلف جیلوں میں اب تک 200 سے زائد مجرموں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں