کشمیر تنازع : 'پاک ہند معاہدہ ہونے والا تھا'

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2015
آصف زرداری کشمیر پر مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے آرمی چیف نے انہیں روک دیا، رپورٹ—۔ فائل فوٹو/ رائٹرز
آصف زرداری کشمیر پر مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے آرمی چیف نے انہیں روک دیا، رپورٹ—۔ فائل فوٹو/ رائٹرز

نئی دہلی: ہندوستانی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر پر خفیہ معاہدہ طے پانے کے قریب تھا جبکہ 'دی ہندو' کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان، بلوچستان کے علحیدگی پسندوں کو نئی دہلی میں پناہ دے رہا تھا۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کے ہندوستانی ایڈیشن کی اشاعت کے بعد ہندوستانی اخبارات نے اُس کے مندرجات کی تصدیق کردی ہے۔

کتاب میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر پر خفیہ سفارت کاری اور بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہندوستانی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس' کی رپورٹ میں ایک سینئر ہندوستانی سفارت کار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور اُس وقت کے پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے جموں و کشمیر پر خفیہ سفارت کاری کے ذریعے ایک معاہدہ تحریر کرلیا تھا۔

ہندوستانی سفارت کار کے مطابق غیر دستخط شدہ معاہدے کا مسودہ منموہن سنگھ نے 27 مئی 2014 کو ہندوستان کے موجود وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے بھی کیا۔

سفارت کار نے کہا کہ معاہدے کے مسودے کے مطابق پہلے مرحلے میں ہندوستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک نمائندہ حکومت بنائی جانی تھی، جس کا کام علاقائی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنا تھا۔

تاہم ہندوستان نے مشرف کی جانب سے مشترکہ انتظام کی تجویز کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس سے ہندوستان کی خود مختاری متاثر ہوگی۔

اخبار کے مطابق ہندوستانی وزیر اعظم کے نمائندے اور سفارت کار ستندر لامباہ اور پرویز مشرف کی جانب سے خفیہ سفارت کاری کا حصہ بننے والے ریاض محمد خان اور طارق عزیز کے درمیان معاہدے پر مذاکرات کے 30 دور ہوئے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ 2008 میں حکومت میں آنے والے سابق صدر آصف علی زرداری نے ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر دوبارہ مذاکرات کرنے کا اعادہ کیا لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نے انہیں مذاکرات سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں : 'ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان فضائی حملوں کا ارادہ رکھتا تھا'

دوسری جانب ہندوستانی اخبار’دی ہندو‘ میں خورشید قصوری کی کتاب میں بلوچستان کے معاملے کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے.

'دی ہندو' نے بلوچ لبریشن آرگنائزیشن (بی ایل او) کے نمائندے بالاچ پاردلی کی تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ بلوچ نمائندوں کی ہندوستان میں موجودگی سے ہندوستان کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو نمایاں کرنے کا اُسی طرح موقع ملے گا، جیسے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں کیا کیا جاتا ہے۔

بی ایل او نے اخبار کی اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اُس کا نمائندہ نئی دہلی میں موجود ہے اور 2009 سے ہندوستان کے دارالحکومت میں اس نے رہائش اختیار کی تھی۔

بالاچ پاردلی نے رواں ماہ 4 اکتوبر کو نئی دہلی میں ایک اجتماع سے بھی خطاب کیا ہے۔

پاردلی نے اخبار 'دی ہندو' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں لندن میں موجود نواب زادہ حربیار مری کی نئی دہلی آمد کے لیے راہ ہموار کریں گے۔

بلوچستان کی آزادی کی جدو جہد کے حوالے سے نواب زادہ حربیار مری نے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ہندوستان بلوچستان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی حکام کھلے عام کشمیر کی آزادی کی جدو جہد کرنے والے حریت رہنماؤں سے مل سکتے ہیں تو ہندوستان کے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات میں کیا قباحت ہے۔

واضح رہے کہ 3 روز قبل خورشید قصوری نے انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو کے دوران انکشاف کیا تھا کہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان نے پاکستانی سرزمین پر فضائی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں