زلزلہ عذاب ہے یا؟

27 اکتوبر 2015
26 اکتوبر 2015 کے زلزلے کے بعد ایک زخمی بچہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ — اے ایف پی۔
26 اکتوبر 2015 کے زلزلے کے بعد ایک زخمی بچہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ — اے ایف پی۔

یہ ماہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آیا۔

وزیرِ اعظم اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے امداد کی مد میں لاکھوں ڈالر اور کئی لڑاکا طیارے حاصل کیے۔ پھر ہندوستان سے معمول کی جھڑپیں بھی تھیں، مگر سرحد کے دوسری جانب بڑھتی ہوئی انتہاپسندی سے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جذباتیت بہت معمولی نظر آنے لگی۔

پھر اکتوبر کے آخری پیر کے روز ایک سانحہ ہوا۔

2005 کے تباہ کن زلزلے کے 10 سال بعد 7.5 شدت کے زلزلے نے ملک کے شمالی علاقے کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں چند ہی منٹوں میں 228 سے زیادہ لوگ ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوگئے۔

ٹی وی چینلوں اور اخباروں نے ہلاک شدگان کی تعداد کے ساتھ یہ بھی بتانا ضروری سمجھا کہ ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے، لیکن انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سن ہو چکے لوگ جو ٹی وی پر افراتفری کے تازہ ترین مناظر، ملبہ اور دبی ہوئی لاشیں دیکھ رہے تھے، خود بھی یہ سمجھ سکتے تھے۔ ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئی تھیں مگر اب تک صرف چند ہی لوگ گنتی میں آئے تھے۔

زلزلے کے بعد جب زلزلے کے مرکز کے قریب مالاکنڈ کے آس پاس کے علاقے ابھی تک جھٹکوں سے لرز رہے تھے، تو ملک کے ٹی وی چینلز پر ہمیں دو طرح کے ماہرین نظر آنے لگے۔

ایک طرح کے ماہرین، جو تعداد میں زیادہ تھے، نے نہایت عالمانہ انداز میں فرمایا کہ زلزلہ پاکستان کے لوگوں کے اعمال کی سزا ہے۔ زمین کی پلیٹوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہلنا، عمارتوں کا گرنا اور بچوں کی ہلاکتیں، یہ قوم کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ ان کے سننے والوں میں سے زیادہ تر لوگوں نے ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ ان کو دیکھنے والے اب تک زندہ ہوتے ہیں اور اب تک زندہ لوگ خود کو زیادہ بہتر سمجھنا پسند کرتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ کے رہائشی پاکستان کے غریب ترین لوگوں کو ایک دن میں دوسری دفعہ دھچکا لگا؛ جب قدرت نے زمین کی پلیٹیں کھسکائیں تو یہ لوگ نشانہ بنے، لہٰذا ان کے ہم وطنوں نے انہیں گناہ گار، اور مستحقِ عذاب تصور کیا۔

ان پر پڑنے والی اس آفت کی ایک حقیقی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ملک کے غریب ترین لوگوں میں سے تھے، غریب لوگ بدقسمت ہوتے ہیں اور ان کی یہ بدقسمتی حادثاتی نہیں ہوتی بلکہ ضرور ان کے کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے وہ غریب ہوئے ہوں گے۔

دوسری طرح کے ماہرین نے ایک اور طرح کی بری خبر سنائی۔

10 سال پہلے زلزلے کے بعد جو زبردست بحثیں ہوئی تھیں، آفات سے بچاؤ کی منصوبہ بندیاں، اساتذہ اور طلبہ کو زلزلے کے لیے تیار کرنے کے لیے جن اداروں کے قیام اور تربیتی پروگرامز کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا، سب ہی فائل بند پڑے تھے۔

امدادی ڈالر آئے، کئی پراجیکٹس کا اچانک اعلان کیا گیا، کبھی اس حکومتی ادارے کو کبھی اس ادارے کو کبھی اس این جی او کو کبھی اس کو پیسے دیے گئے، مگر دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔

زلزلے کے فوراً بعد ہونے والی امدادی کارروائیوں کو دیکھ کر واضح تھا کہ 10 سالوں میں کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک چترال کا رابطہ پورے پاکستان سے کٹ چکا تھا۔ پہاڑی تودے گرنے سے سڑکیں بند ہو چکی تھیں اور زخمیوں کو وہاں سے نکالنا اب صرف فضائی ذریعے سے ممکن تھا۔

اور اس کی کئی لوگوں کو ضرورت تھی؛ اس علاقے کے لوگوں نے لائیو ٹی وی چینلوں پر فون کے ذریعے اپیلیں کیں۔ اس کے جواب میں حکومتی عہدیداران زور دیتے رہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کو ہیلی کاپٹر بھجوائے جا چکے ہیں۔

سرد رات گزر گئی مگر کوئی ہیلی کاپٹر چترال نہیں پہنچا۔ ہلاک شدگان کی لاشیں ایسے ہی پڑی رہیں جبکہ تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ تقریباً ایک دن بعد پاک فوج ان کی مدد کو پہنچی اور مدد کے منتظر چترالیوں کو سی 130 میں امدادی سامان پہنچایا۔

جذباتی محبِ وطن پاکستان میں بہت زیادہ ہیں اور ان کے نزدیک دفاع اور آفات، دونوں محکموں کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں ہوتا۔

یہ لوگ قوم کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کا محلِ وقوع جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہم ہے جہاں عالمی طاقتیں اپنی پنجہ آزمائی کرتی ہیں، اسی لیے ملک کو بموں اور لڑاکا طیاروں کی بہت ضرورت ہے۔

اگر یہ درست ہے تو یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کرہء ارض کی سب سے متزلزل پلیٹوں کے اوپر قائم ہے، اور اس لیے آفات سے نمٹنے کے لیے پختہ عزم کی ضرورت ہے۔

اور اس دوسرے مقصد کو ہم نے 10 سال پہلے بھی نظرانداز کیا، کل بھی نظر انداز کیا، اور آئندہ ایک بار پھر نظرانداز کر دیں گے۔

یہ عدم توازن نہ صرف انتہائی خطرناک ہوگا، بلکہ اس میں ہمارا تمسخر بھی ہے: ایک ایسا ملک جو 'محفوظ' تو ہے، مگر جس کی زمین غیر مستحکم ہے، اور کسی بھی وقت ملک کی بنیادیں تک جھنجھوڑ سکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Zeshan baig Oct 27, 2015 06:54pm
what did she tried to say, fault of people? fault of analysts? fault of Govt? fault of Army? or fault of plates under ground? For God sake please don't just criticize all the time....people don't like it anymore, everything is going to be fine in our country in coming years InshaAllah.
Inzaar Oct 27, 2015 09:46pm
ابو یحیی جب کبھی بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے توبحث چھڑ جاتی ہے کہ یہ عذاب ہے یا نہیں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے اور دنیا کی ساری قوموں پر ہر زمانے میں آتی رہتی ہیں اور جو قوم جتنی بدحال ہے اسے اتنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ درست نقطہ نظر ہمیں قرآن سے معلوم ہوتا ہے قرآن مجید میں عذاب آفات کی مختلف اقسام بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں اور سب پر آتی ہیں تاکہ لوگ توبہ و رجوع کریں۔ موجودہ دور میں آنے والے سیلاب زلزلے اسی قبیل سے تعلق رکھنے والی آفات ہیں جبکہ عذاب الٰہی صرف بدکاروں پر آتا ہے۔ مسلمانوں پر ان کی بداعمالیوں کے سبب جوگرفت ہوتی ہے اس پر میں نے اپنے ناول آخری جنگ میں بحث کی ہے۔ ان آفات کے متواتر آنے کا سبب قرب قیامت ہے بعض اوقات ان کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت زیادہ نقصانات ہوجاتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شدت بڑھتی جائے گی وقت ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے آخری عذاب کے آنے سے قبل اسلام کی تعلیمات کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جائے۔ تاکہ جس نے رجوع کرنا ہے وہ کر لے۔ یہی دنیا کو بتانے کا کام ہے
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Oct 27, 2015 11:20pm
بہت عمدہ تحرہر لیکن سب سے اہم سب زیادہ غور طلب اور تکلیف دہ جو لائن ہے وہ یہ ہے "10 سال پہلے زلزلے کے بعد جو زبردست بحثیں ہوئی تھیں، آفات سے بچاؤ کی منصوبہ بندیاں، اساتذہ اور طلبہ کو زلزلے کے لیے تیار کرنے کے لیے جن اداروں کے قیام اور تربیتی پروگرامز کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا، سب ہی فائل بند پڑے تھے"