چکوال : چکوال شہر سے لگ بھگ 79 کلومیٹر دور مرکزی تلہ گنگ - میانوالی شاہراہ سے ایک ذیلی سڑک دھرنال گاﺅں کی جانب لے جاتی ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے دن جب ہم دھرنال میں داخل ہوئے تو متعدد خواتین کو کھیتوں میں تنہا کام کرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ خواتین اپنی بکریوں کو چرا رہی تھیں جبکہ دیگر مونگ پھلی کو چننے میں مصروف تھیں۔

گاﺅں کی گلیاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں جو یہاں قائم کیے گئے چار پولنگ اسٹیشنز کی جانب جانے اور وہاں سے واپس آرہے تھے۔

ایک قریبی پولنگ اسٹیشن میں مرد ووٹ ڈالنے کے لیے قطار بنائے کھڑے تھے، مگر خواتین کے لیے ملحقہ پولنگ اسٹیشن میں پولنگ عملے کو کچھ زیادہ کام نہیں کرنا پڑا۔

پریذائیڈنگ آفیسر غلام انور نے بتایا " ہم یہاں فارغ ہیں اور پانچ بجنے کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ اس وقت پولنگ ختم ہوجائے گی"۔

انہوں نے مزید بتایا " اگرچہ گاﺅں میں چار ہزار سے زائد خواتین کے ووٹ رجسٹر ہیں مگر کسی ایک نے بھی ووٹ نہیں ڈالا"۔

دھرنال میں چھ ہزار سے زائد مردوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں جبکہ خواتین کی تعداد کم ہے۔

علاوہ ازیں دھرنال، دھرنال یونین کونسل (یو سی) کا ہیڈکوارٹر بھی ہے، نصف درجن دیہات مل کر یونین کونسل کو تشکیل دیتے ہیں مگر دھرنال اور بلوال کی خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے۔

سابق جنرل کونسلر ملک خان زمان کا کہنا تھا " یہ ہماری روایت ہے جس پر دہائیوں سے عملدرآمد ہورہا ہے"۔

گاﺅں کے بزرگوں نے مقبول روایت کو بیان کیا کہ خواتین اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈالتی۔ مسلم لیگ نواز دھرنال یونین کونسل کے چیئرمین ملک یاران خان کے مطابق " اگر کوئی خاتون اپنا ووٹ ڈالنا چاہے تو کوئی بھی اسے روکے گا نہیں"۔

ملک خان زمان زور دیتے ہیں کہ چونکہ گاﺅں میں متعدد قبائل ہیں جن میں تصادم ہوتا رہتا ہے، لہذا پرانی دشمنی اس صورت میں پھر سر اٹھاسکتی ہے جب خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں۔

انہوں نے کہا " جب ایک خاتون اپنے گھر سے نکلتی ہے اور ایسی جگہ جاتی ہے جہاں مرد بھی موجود ہو تو کچھ بدقسمت واقعات پیش آسکتے ہیں"۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ خواتین کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں تو ملک زمان کا کہنا تھا " ہر خاتون اپنے کھیت پر کام کرتی ہے اور کسی بھی مرد میں ہمت نہیں کہ کسی ایسے کھیت میں داخل ہوجائے جو کسی اور کی ملکیت ہو"۔

دھرنال ہی واحد گاﺅں نہیں جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے آئینی حق پر عملدرآمد کی اجازت نہیں۔ بلوال اور ڈھولر میں بھی خواتین نے ووٹ نہیں ڈالا جبکہ تلہ گنگ کے دیگر دیہات میں خواتین ووٹرز کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی۔

ایک ٹیچر نے بتایا " گاﺅں کی خواتین ووٹ ڈالنا چاہتی ہیں مگر ان کے بزرگوں نے اس کی اجازت نہیں دی"۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا " میں نے ہمت کرتے ہوئے گزشتہ عام انتخابات میں ووٹ ڈالا، اس طرح میں نے تلہ گنگ شہر، راولپنڈی اور اسلام آباد کی کچھ تعلیم یافتہ خواتین کی مثال پر عمل کیا جن کے ووٹ دھرنال میں رجسٹرڈ ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ عام انتخابات میں چودہ خواتین نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے تھے " میرے علاوہ دیگر تمام خواتین تلہ گنگ، راولپنڈی اور اسلام آبادسے آئی تھیں۔ انہیں ووٹ ڈالنے کے بعد کسی قسم کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوا مگر جب میں نے ووٹ ڈالا تو میرے خاندان کے مردوں نے مجھے کافی برا بھلا کہا"۔

ایک اور خاتون نے بتایا " ماسٹر اور بی ایڈ کی ڈگریوں کے باوجود میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکی جبکہ ان پڑھ مردوں نے ووٹ ڈالا"۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ دھرنال میں خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے مگر ان کی ووٹنگ کو ' نامناسب' سمجھا جاتا ہے۔

دھرنال سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ مہر خان کے مطابق " مجھے یہ روایت مستقبل قریب میں ختم ہوتی نظر نہیں آتی"۔

پوٹھوہار آرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ ایڈووکیسی کی ضلیعی سربراہ ناہیدہ عباسی نے فوری طور پر ایسے اقدامات کا مطالبہ کیا جن کے تحت مردوں کو قائل کیا جائے کہ ووٹ ڈالنا خواتین کا بھی آئینی حق ہے۔

انہوں نے کہا " گاﺅں کے سیاستدان کہتے ہیں کہ انہیں خواتین کے ووٹوں کی ضرورت نہیں جیسے خواتین انسان نہیں"۔

جب رکن قومی اسمبلی سردار ممتاز خان تمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سے واقف نہیں کہ دھرنال اور دیگر دیہات کی خواتین نے ووٹ نہیں ڈالا " یہ بہت عجیب روایت ہے جس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ ان دیہات کے مردوں کو قائل کرسکوں کہ خواتین کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے"۔

تبصرے (0) بند ہیں