کراچی: انتخابات سے قبل جماعتوں کی صف بندی

04 دسمبر 2015
لانڈھی میں لگے ایم کیو ایم حقیقی اور تحریک انصاف کے پوسٹرز و بینرز — فوٹو وائٹ اسٹار
لانڈھی میں لگے ایم کیو ایم حقیقی اور تحریک انصاف کے پوسٹرز و بینرز — فوٹو وائٹ اسٹار

لانڈھی نمبر چار کے چراغ ہوٹل بس اسٹاپ سے علاقے میں داخل ہوتے ہی ماحول بہت زیادہ گرمجوش محسوس ہونے لگتا ہے، توجہ فوری طور پر ایک بڑے سائن بورڈ کی جانب مبذول ہوتی ہے جس پر مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہاں سے آگے بڑھنے پر ہمیں ایک اور بڑے بل بورڈ پر ان کے حریف جو کبھی ان کے لیڈر بھی تھے یعنی مہاجر قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نظر آئے۔

جو کراچی کی انتخابی روایات سے واقف اور خونی تاریخ سے آگاہ ہیں، سمجھ سکتے ہیں کہ آگے پیچھے لگے ان دو بل بورڈز کی موجودگی ماحول کو گرما دینے کے لیے کافی ہے۔ اگر یہ بھی ناکافی ہے تو کرکٹ ایک بڑا بلا یعنی پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان اور اس کے انتخابی اتحادی جماعت اسلامی (جے آئی) کے پوسٹرز ہر جگہ موجود ہیں جو ماحول کو زیادہ گرما رہے ہیں۔

اس گنجان آباد علاقے کا یہ مصروف چوراہا کراچی کی انتخابی سرگرمیوں کے جوش کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ چند مناظر جن میں سے بیشتر چراغ ہوٹل کی طرح شہر کے ضلع شرقی میں ہیں، صورتحال کو زیادہ دلچسپ اور کسی حد تک تناﺅ سے بھرپور بھی بنارہے ہیں۔

ہم لوگ مہاجر قومی موومنٹ جسے ایم کیو ایم حقیقی بھی کہا جاتا ہے، کے کیمپ پر پہنچے تاکہ ان نوجوانوں سے مل سکیں جو ووٹرز کو قائل کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک یہ جاننے میں لگے ہیں کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہوچکے ہیں یا نہیں۔ عظیم الدین نے ہمیں بتایا " بزرگوں" کی آمد جلد متوقع ہے اور ہمیں انتظار کرنا چاہئے۔

پندرہ منٹ کے بعد ایک درمیانی عمر کے شخص نے خود کو علاقے کی " مہم انچارج" کے طور پر متعارف کرایا۔ حیرت انگیز طور پر اس نے اخبار کے ساتھ اپنا نام شیئر کرنے سے انکار کرتے ہوئے بس یہ وضاحت کی کہ ' انٹری' کے بعد کی ' صورتحال' کو معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔

لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور لائنز ایریا کے رہائشی بخوبی واقف ہیں کہ ' انٹری' کا کیا مطلب ہے۔ یہ اصطلاح 1992 کے اس وقت ابھری تھی جب مہاجر قومی موومنٹ شہر کے سیاسی منظرنامے کا حصہ بنی اور کراچی کے ان حصوں کو متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے لیے ورکرز کی رسائی کے لیے ' نو گو ایریا' بنادیا۔ یہ واقعات کراچی کے خونریز اور پرتشدد تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔

1992 سے 2002 کے دوران غریب اور متوسط طبقے کے ان علاقوں کے باسی ' انٹری' کی اصطلاح سننے کے عادی ہوچکے تھے، جس کا حوالہ اپنے حریف کے مضبوط گڑھ پر جگہ بنانے کی کوشش کے لیے دیا جاتا۔ 2002 میں تاریخ نے خود کو دہرایا اور ایم کیو ایم حقیقی کو ان علاقوں سے اس وقت باہر نکال دیا گیا جب ایم کیو ایم نے عام انتخابات میں شہر میں اکثریتی پارٹی کی حیثیت حاصل کرلی۔

ایم کیو ایم حقیقی کی مہم کے انچارج شخص نے بتایا " اس بار انٹری کے عمل کے دوران کوئی تشدد نہیں ہوا اور حالات معمول پر رہے"۔

اس نے مخصوص علاقوں میں ایک دہائی کے بعد اپنی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کا حوالہ دیا تھا جو ' ٹارگٹڈ آپریشن' کے بعد ہوئیں جس کے دوران رواں سال مارچ میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ بھی مارا گیا۔

اس نے ہمیں بتایا ' اب تک حالات اچھے چل رہے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ اختتام بھی اچھا ہوگا، ہم یہاں اور وہ (ایم کیو ایم کے ورکرز) وہاں بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کررہے۔ ہم بس اپنے علاقوں میں اپنی پسند کی پارٹی میں آزادی سے رہنا چاہتے ہیں، کوئی بھی تشدد یا خونریزی کو پسند نہیں'۔ مگر جب ہم نے 5 دسمبر کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پوچھا تو اس نے بس یہ کہا " دیکھیں کیا ہوتا ہے"۔

کچھ فاصلے پر دو ٹرک اور ایک بس جماعت اسلامی کے کیمپ کے باہر اس بڑے قافلے کا حصہ بننے کے لیے تیار تھے جو عمران خان اور سراج الحق کو ائیرپورٹ سے لینا جارہا تھا تاکہ وہ دونوں جماعتوں کی مشترکہ ریلی سے خطاب کرسکیں۔

اپنی جماعت کے انتخابی نشان ترازو کا ہیڈ بینڈ پہنے نوجوان ورکر شاہد خان ساتھی ورکرز کو جمع کرنے میں مصروف تھا۔ وہ جذباتی اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کافی پرامید نظر آیا اور اس کے خیال میں جے آئی۔ پی ٹی آئی کا اتحاد کام کرے گا۔

اس کا کہنا تھا " اگر انتخابات پرامن اور شفاف ہوئے تو آپ بڑی تبدیلی دیکھیں گے، ہمارے حریف دھاندلی اور تشدد کے لیے جانے جاتے ہیں اور اب بھی ایسا ہوا تو یہ شہر کے حقیقی مینڈیٹ پر مفاہمت کے مترادف ہوگا۔ یہ انتظامیہ اور رینجرز کے لیے ٹیسٹ ہے"۔

مگر ' پرامن اور شفاف انتخابات ' کا تصور کرنے والا شاہد کراچی کے مستقبل کے میئر کے حوالے سے پریقین نہیں تھا لہذا اس نے اپنے آپشنز کھلے رکھتے ہوئے کہا ' دیکھیں کیا ہوتا ہے'۔

اپنے حریف کے برعکس ایم کیو ایم کا کیمپ کافی پرجوش تھا۔ نوجوان ورکرز پارٹی کے نغموں پر ناچتے ہوئے تصاویر لے رہے تھے اور بیشتر نے ایم کیو ایم کے انتخابی نشان پتنگ کے بیجز پہن رکھے تھے۔ یہ لگ بھگ بالکل ویسا ہی منظر تھا جو انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد جشن مناتے ہوئے نظر آتا ہے۔

کیمپ کے سب سے سنیئر فرد عزیز بھائی سے اس جوش کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا " جشن کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے، کیا آپ کو حیدرآباد کے بارے میں معلوم نہیں؟"

کیمپ میں موجود ورکرز لگ بھگ پراعتماد ہیں کہ ان کی جماعت ' کلین سوئپ' کرے گی اور بیشتر نے 5 دسمبر کے عمل کو ایک ' رسمی کارروائی' قرار دیا۔ ان کے دعوﺅں کے دوران ایک ایم کیو ایم ورکر کے الفاظ نے ہمیں متوجہ اس وقت کیا جب ہم ایم کیو ایم حقیقی کی علاقے میں ' انٹری' کے باوجود متحدہ کی پرامن مہم کے بارے میں سوچ رہے تھے۔

اس کا کہنا تھا " وہ بہت زیادہ دیر تک نہیں رک سکیں گے، انہیں جلد یا بدیر جانا ہوگا۔ ان کے پاس ووٹ بینک نہیں اور نہ ہی انہیں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ وہ مہاجروں کے غدار ہیں اور لوگ انہیں کبھی قبول نہیں کریں گے"۔

انگلش میں پڑھیں.


یہ مضمون یکم دسمبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا.

تبصرے (0) بند ہیں