اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے الزام لگایا ہے کہ ’ مالی مفادات کا حصول چاہنے والی طاقتیں‘ اور ’سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘، 2009 میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اعلان کیے جانے والے فاٹا ریفارمز پیکج پر عمل درآمد میں تاخیر کی ذمہ دار ہیں۔

شہید بھٹو فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار ’فاٹا کو مرکزیت میں لانا‘ کے دوران پی پی پی کے سینٹر فرحت اللہ بابر اور اے این پی کی نائب صدر بشرا گوہر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مالی مفادات‘ کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹوں کی وجہ سے اتحادی حکومت کو فرنٹئیر کرائم ریگولیشنز (ایف سی آر) میں معمولی تبدیلی کرنے کے لیے دو سال کا عرصہ لگ گیا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق وہ اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ کس طرح ’سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘ کی ایما پر 14 اگست 2009 کو ہونے والے ایک عوامی خطاب سے قبل فاٹا اصلاحات کے اعلان کو عین موقع پر طاقت کے ذریعے تبدیل کروایا گیا۔

مزید پڑھیں: صدر کا فاٹا میں اصلاحاتی عمل جاری رکھنے پر زور

سوال جواب کے سیشن کے دوران فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری قوم سے خطاب کے دوران وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو مرکزیت میں لانے کے لیے جامع پیکج کا اعلان کرنے والے تھے، لیکن انھیں تقریر سے کچھ دیر قبل ایسا نہ کرنے کی تجویز دی گئی۔

آصف علی زرداری اپنے خطاب میں متعدد اقدامات، جن میں ایف سی آر کے قانون میں 5 ترامیم، پولیٹیکل ایجنٹس کے بینک اکاؤنٹس کی آڈیٹنگ اور 2002 کے پولیٹیکل پارٹیز حکم (پی پی او) کا نفاذ شامل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک مشکل اور ناممکن فیصلہ تھا کہ وہ اپنی تقریر میں سے اسے نکال دیتے کیونکہ میڈیا اسے رپورٹ کرچکا تھا کہ اس رات فاٹا اصلاحات پر اہم اعلان متوقع ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا میں مستقبل کے نظام کی بحث

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’آخر کار درمیانی راستہ اپنایا گیا اور آصف زرداری نے صرف یہ اعلان کیا کہ فاٹا میں دور رس اصلاحات متعارف کروائی جارہی ہیں تاہم اُن کی تفصیلات صرف سرکاری طور پر جاری پریس ریلیز میں شامل کی گئی تھیں۔‘

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والا بیان بے مثال اور متنازع تھا، جس میں نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے نفاذ میں کوتاہیوں کا ذمہ دار سویلینز کو ٹھہرایا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ وزیراعظم نواز شریف کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ قبائلی عوام سے مشاورت کے بعد فاٹا اصلاحات کو قبائلی علاقوں میں نافذ کردیں‘۔

فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کا یہ ماننا ہے کہ فاٹا میں اصلاحات اور ذاتی حکومت کے ذریعے سے قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر کی سیکیورٹی بلا آخر مضبوط ہوجائے گی۔

یہ بھی دیکھیے: ملک میں امن فاٹا میں امن کے ساتھ منسلک، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

دوسری جانب اے این پی کی بشرا گوہر کا کہنا تھا کہ ’کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیں جو فاٹا کو اسلام آباد اور راولپنڈی کی کالونی بنانا چاہتی ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ فاٹا کو ہمیشہ اسٹریٹجک خلاء کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اے این پی کی رہنما نے سوال اٹھایا کہ فاٹا کا 95 فیصد علاقہ فوجی آپریشن کے دوران دہشت گردوں سے خالی کروایا جاچکا ہے، ’لیکن باقی کا 5 فیصد کب تک خالی کروا لیا جائے گا‘۔

فاٹا کمیٹی کی اصلاحات کے لئے ارکان پارلیمنٹ سے مدد کی درخواست

بشرا گوہر نے وفاقی وزیر مملکت برائے فرنٹیئر ریجن (سفران) لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کے جاری بیان پر شدید تنقید کی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ فاٹا اصلاحات کو اُس وقت تک نافذ نہیں کیا جاسکتا جب تک اندرونی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی بحالی کاکام مکمل نہیں ہوجاتا۔

یہ خبر 11 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Dec 11, 2015 11:40pm
دونوں رہنماوں کی موقف کی تائید کرتے ھیں پاٹا قبائلی علاقے قیام پاکستان سے پاکستان کا حصہ ھیں لیکن بدقسمتی سے وہاں اج بھی انگریزوں کا بنایا گیا قانون چلتا ھے وہاں نہ عدالت ھے نہ قانون اور نہ انصاف ہر ایجنسی کا پولیٹیکل ایجنٹ وہاں کا بادشاہ ھوتا ھے انکے فیصلے کے کسی کو عدالت میں جانے کی اجارت نہیں قبایلی علاقوں کو پختون خوا میں شامل کیا جائے تاکہ وہاں کے لوگ بھی انسانوں کے دائرے میں آجائے