پاکستانی نوجوانوں کی اپنی زندگیوں سے اونچی توقعات

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2017
جن دوستوں کی زندگیاں ان کی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں تھی، وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے تھے۔ — فوٹو منروا جون
جن دوستوں کی زندگیاں ان کی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں تھی، وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے تھے۔ — فوٹو منروا جون

یہ ایک معمول کی صبح تھی جب نوجوانوں کا ایک گروپ اپنے کام کے مسائل پر بات کر رہا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے گروپ کی جانب دیکھا اور جانا کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنی حالیہ جاب کو اپنی زندگی بھر کی جاب نہیں سمجھتا۔ ہم سب زیادہ حاصل کرنا چاہتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ کیا ہم خود سے بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے؟

اپنے ذہن میں انہی خیالوں کے ساتھ میں نے یہ جاننے کے لیے گوگل کھولا کہ دوسرے لوگ ملینیئلز (1980 سے 2000 کے بیچ میں پیدا ہونے والے لوگ) کی اپنی زندگیوں سے وابستہ اتنی امیدوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

سرچ کرتے کرتے میں ایک پیج پر پہنچی جو "ملینیئلز کی غیر حقیقی امیدوں" کے بارے میں تھا۔ یہ پورا پیج ان مضامین سے بھرا پڑا تھا جس میں نوجوانوں کو اپنی زندگی سے بہت زیادہ امیدیں لگا لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

میں نے یہ جاننے کے لیے کہ میرے پاکستانی سماجی حلقے کے نوجوان کیا واقعی زندگی سے غیر حقیقی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں، ایک غیر رسمی سروے کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی زیادہ امیدیں غیر حقیقی نہیں تھی۔ 'حقیقی دنیا' میں گزارے گئے چند سالوں نے زندگی کے بارے میں ان کی کئی خوش فہمیاں دور کر دی تھیں۔ مگر اس سے وہ زندگی کو اب تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔

میرے زیادہ تر دوست جن کی زندگیاں ان کی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں تھیں، وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے تھے اور اس دوران اپنی قدر و قیمت سے بھی مایوس ہوگئے تھے۔

جن کو ان کی پسند کے کریئر نہیں مل سکے، وہ آس پاس موجود بے ایمانی اور اقربا پروری سے بہت ناامید نظر آئے، کیونکہ انہوں نے ایمانداری کی توقع کی تھی۔

لیکن اسی وقت، وہ کئی چیزیں جن پر ترقی یافتہ ممالک کے لکھاریوں نے تنقید کی تھی، پاکستانی نوجوانوں میں موجود نہیں تھیں، جبکہ کچھ یقینی طور پر تھیں بھی۔

ذیل میں ان امیدوں کی فہرست ہے جو ہمارے نوجوان زندگی سے لگا لیتے ہیں اور پھر ان کے پورا نہ ہونے پر مایوس ہو جاتے ہیں۔

امید: اگر میں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے، تو میں خوش ہوجاؤں گا

حقیقت: یہ اتنا آسان نہیں ہے، خوشی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے۔

مستقل خوشی کی توقع کرنا خود کو ناکامی کے راستے پر گامزن کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کوئی کتنا ہی بڑا مقصد کیوں نہ حاصل کر لیں، ایک بار جب آپ اس کے سحر اور خوشی سے باہر نکلیں گے، تو حقیقی زندگی وہیں پر آپ کا انتظار کر رہی ہوگی، تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کے ساتھ۔

مستقل خوشی کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی تلاش کی جائے اور ان کا مزہ لیا جائے۔ اپنے پیسے کو چیزوں پر لگانے کے بجائے اسے اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ نئے تجربوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اس طرح آپ کے پاس ایسی کئی خوشگوار یادیں جمع ہوں گی جو آپ کے برے دنوں میں آپ کو امید دلائیں گی۔

بڑی اسکرین والا ٹی وی اور مہنگے کپڑے بھی اچھی چیزیں ہیں، مگر یہ آپ کی زندگی کو اس طرح روشن نہیں کر سکتے جس طرح اپنے پیاروں کے ساتھ گزارے گئے چند لمحے۔

امید: کیونکہ میں ذہین/اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں، اس لیے میں فوراً ترقی کروں گا

حقیقت: کریئر فلموں اور اشتہاروں میں دکھائے جانے والی زندگی سے بہت مختلف ہوتا ہے۔

ایک کامیاب پراجیکٹ کے اختتام پر تالی اور ایک قدردان باس کی جانب سے تھپکی سے پہلے چھوٹے چھوٹے کئی معمولی کام بھی ہوتے ہیں جو اس طرح کے لمحات تک پہنچاتے ہیں۔

آخر کسی کو تو وہ خطوط اور نوٹس ڈرافٹ کرنے ہوتے ہیں، لوگوں کو فون کر کے میٹنگز سیٹ کرنی ہوتی ہیں، فوٹو کاپیاں تیار کر کے دستاویزات فائل کرنی ہوتی ہیں۔ وہ کوئی شخص اکثر سیڑھی کے سب سے نچلے حصے میں ہوتا ہے جہاں سے آپ اپنا کریئر شروع کرتے ہیں۔

پیٹھ پر تھپکی چاہتے ہیں تو سخت اور طویل محنت کے لیے تیار رہیں۔ جس طرح روم ایک دن میں تیار نہیں ہوا تھا، اسی طرح آپ کا کریئر بھی نہیں ہوگا۔

چاہے آپ اپنا کام خود کریں یا کسی کارپوریشن کے لیے کریں، محنت، عزم، لگن اور کوشش ہی آپ کو وہاں پہنچائے گی جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس درمیان کوئی شارٹ کٹس موجود نہیں ہیں۔

امید: اگر میں سخت محنت کروں، تو میں ضرور کامیاب ہوجاؤں گا

حقیقت: ہمیشہ نہیں، اس لیے آپ کے پاس دوسرا پلان بھی ہونا چاہیے۔

مجھے گرمیوں کی ایک وہ صبح یاد ہے جب میں 17 سال کی تھی۔ ہمارے گھر میں اس اسکالرشپ پر بات ہو رہی تھی جس میں میں نے درخواست دی تھی۔ میں نے اپنی امی سے کہا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ چیزیں میرے حق میں ہوں گی، ابتدا میں کچھ مشکل ہوگی مگر بعد میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔'

جلد ہی میرے امیدوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی کیونکہ مجھے وہ اسکالرشپ نہیں ملی۔ اس کے علاوہ میرے ہاتھ سے دوسرے مواقع بھی نکل گئے کیونکہ میں نے کہیں اور اپلائی نہیں کیا تھا۔

شکر ہے کہ اس جھٹکے کے بعد چیزیں واپس ٹریک پر آگئیں اور مجھے اچھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔

آپ کے پاس ہمیشہ دوسرا پلان ہونا چاہیے۔ خود اعتمادی اچھی اور اہم چیز ہے مگر اس میں حقیقت پسندی بھی شامل ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی چیزیں ادھر ادھر بھی ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر چیز پر ہمارا کنٹرول تو نہیں ہوتا نا؟ اس لیے ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔

امید: میری محنت کی تعریف کی جائے گی

حقیقت: لوگ آپ کی محنت پر توجہ نہیں دیں گے، اور اگر دیں گے بھی تو آپ کو اچھا محسوس کروانے کے لیے اچھے الفاظ نہیں کہیں گے۔

ہمیں ہمارے والدین بے پناہ توجہ اور تعریفوں کے سائے میں بڑا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ ہر کوئی ہمارے والدین کی طرح ہی یہ بات جانتا ہوگا کہ ہم کتنے زبردست ہیں۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب آپ کے ارد گرد موجود سب ہی لوگ ایسے ہی ہوں۔

آپ نے ایسی کسی چیز پر کافی محنت اور وقت لگایا ہوگا جو کسی دوسرے کے نزدیک کافی عام بات ہو۔ یا ہوسکتا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ آپ تعریف چاہتے ہیں۔

ہمارے کلچر میں اور ہماری بڑی نسلوں میں تعریف کی امید رکھنے کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ اپنی قابلیت، کامیابی اور کارکردگی کو نمایاں کرنے سے شرمائیں نہیں، کیونکہ صرف تب ہی لوگ جانیں گے کہ آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ تعریف کی اتنی توقعات باندھ لیں کہ ٹائپنگ کی غلطیوں سے پاک رپورٹ لکھنے پر بھی تعریف کا انتظار کرنے لگیں۔

امید: اگر میں اپنا مسئلہ حل نہ کر سکوں، تو کوئی اور کر دے گا

حقیقت: اپنے مسائل کے حل کا صرف ایک طریقہ ہے: خود کریں۔

اس امید کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو ہر مشکل صورتحال سے اپنے بچوں کو بچائے رکھتے ہیں۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کے ہوم ورک اور اسائنمنٹ تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں، بچوں کے حصے کے گھریلو کام بھی کرتے ہیں، اور ہر جگہ ان کے ساتھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ نوکری کے پہلے دن بھی۔

آپ تب تک بڑے نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اس حفاظتی محبت کے درمیان گھرے رہیں گے، کیونکہ بڑے ہونے کے لیے کچھ سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اگر کوئی آپ کو ان سختیوں سے بچا رہا ہے، تو آپ زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں نہیں جان سکیں گے۔

پھر اس کا نقصان ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص آپ کے مسائل حل کرنے کے لیے آپ کا ساتھ ہمیشہ نہیں دے سکتا۔ آپ کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے۔

انتظار چھوڑیں، اور عمل کریں

اگر آپ سپر ہیرو بننے کے لیے کسی مکڑی کے کاٹنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ایسا مت کریں۔ اپنا ہیرو خود بنیں۔

ہم نے امیدوں کے بارے میں وہ غصہ دلانے والا جملہ تو سنا ہی ہے کہ "امیدیں نہ رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔" یہ بات کتنی بھی درست کیوں نہ ہو، ہم نوجوان اتنے مثبت حالات میں بڑے ہوتے ہیں کہ ہمیں یہی امید رہتی ہے کہ زندگی مثبت ہی رہے گی۔

مگر جب مایوسی کا پہلا جھٹکا لگتا ہے، تو یا تو ہم سیکھ سکتے ہیں اور بڑے ہو سکتے ہیں، یا پھر ہم تلخ ہو کر ہمت ہار سکتے ہیں۔ کامیابی اور ناکامی کے درمیان صرف اتنا ہی فرق ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 02, 2016 04:58pm
امیدیں جب بڑھی حد سے طلسمی سانپ ہیں زاہد جو توڑے یہ طلسم، اے دوست گنجینہ اُسی کا ہے And مرتکز کر لیجئے اپنے خیالوں کو کہیں کیا ملے گا زندگی میں نِت نئی ترمیم کر کے
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 02, 2016 06:00pm
پاکستانی معاشرہ کی مجموعی نفسی، روحانی اور کریکٹر بلڈنگ خاص کر کرتا دھرتا آفیسرز کے پیش نظر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ محنت، عزم، لگن کی کوئی اہمیت ہو۔ محنت، عزم اور لگن جب تک کرتا دھرتا افراد کی نظر میں نہیں آئے گا تب تک یہ لیبر لاسٹ ٹھہرایا جائے گا اور متعلقہ ملازم و ملازمہ کی سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ لہذا جب تک افسران محنت اور لگن، نفاست اور تیزرفتاری کو سر آنکھوں پر نہیں بٹھاتے تب تک محنت اور لگن سے کام کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ عام ہے کہ چاپلوس، خوشامدی اور بڑبولے ملازمین جو عملی طور پر صفر کام کرتے ہیں، وہ کرتا دھرتا آفیسرز کی نظروں کا تارا بن جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں محنت اور لگن کا کیا فائدہ؟ جب کوئی دیکھنے والا ہی نہیں تو ظاہر کرنادانشمندی نہیں ہو گی ! اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں شام آ گئی ہے، لوٹ کر گھر جائیں ہم تو کیا
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 02, 2016 06:06pm
یہ سولہ آنے درست کہ زیادہ سے زیادہ خودانحصاری اختیار کرنی چاہیے اور والدین سے چوبیس گھنٹے توقعات نہیں رکھنی چاہیئں۔ ہاں البتہ اگر کوئی گنجلک معاملہ تو اس میں گرنا لازمی ہو تو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر گنجلک معاملہ سے باہر نہ نکلا گیا تو نو پرابلم، ابا جی ہیں ناں ! والدین کو میٹرک کے فوری بعد اپنے نیانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اپنا ہاتھ سر پر سے اٹھا لینا چاہیے تاکہ بچے دنیا داری کے جھمگٹوں میں داخل ہوں اور آپے ہی باہر نکلیں۔ دیکھا گیا ہے۔ جہاں تک بات ہے خوشیوں کی، تو مادہ پرستانہ دور میں خوشیاں براہ راست مادیت سے منسوب ہو چکی ہیں جو کہ عارضی ہوتی ہیں۔ روحانی خوشیوں کو حاصل کرنے اور انجوائے کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ممکن ہو گا جب کمرشلزم کے چنگل سے غازی بن کر نکلا جائے گا ! بہرحال چونکہ دنیا کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بندہ قنوطیت پسندی کا دامن تھام لے اور یہ ایسی صورتحال ہو گی کہ غم میں خوشی اور خوشی میں غم سے لطف اندوز ہوا جا سکے گا۔ کوئی غم در بدر نہیں ہو گا جب تلک میرا دل سلامت ہے
Sajjad Khalid Jan 05, 2016 12:52pm
انسان خلاء میں نہیں زمین پر انسانوں کے بنائے ہوئے ماحول میں جنم لیتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ کوئی نئی نسل اپنے معیارات نہ تو پرانی نسل سے کلی طور پر قبول کرتی ہے اور نہ کر سکتی ہے۔ ہر نسل کو جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہ مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے پندرہ سے تیس سال کے لوگ اپنے سے پہلے گروپ سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں اسل لئے کہ معلومات تک رسائی آسان تر ہے۔ یہ لوگ پہلے گروپ سے کم حوصلہ رکھتے ہیں اس لئے کہ ان کو دولت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر منصفانہ تقسیم پچھلی نسل سے زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ ان کو ایک سرمایہ داری نظام کے تحت اشتہاء انگیز میڈیا کا بری طرح سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری نئی نسل کی روحانی اور آخلاقی تربیت کے لئے پرانی نسل کولیفائی نہیں کر سکی۔ اس لئے انہیں اپنے لئے اس معاملے میں بھی خود راہ نکالنی پڑ رہی ہے۔ مشرقی فنون کے زوال نے ہماری نئی نسل کو مغربی فنون اور طرزِ زندگی کا گرویدہ بنایا ہے۔
Daudpota Apr 29, 2017 05:34pm
outstanding.... very practical and motivational article... youth must read this