کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کی ایک 17 سالہ طالبہ نے کالج پرنسپل کی جانب سے داخلہ فارم انٹرمیڈیٹ بورڈ نہ بھجوائے جانے پر خودکشی کرلی.

سیکنڈ ایئر کی طالبہ ثاقبہ کاکڑ کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، مسلم باغ کی پرنسپل عابدہ غوثیہ نے ثاقبہ اور 12 دیگر لڑکیوں کے داخلہ فارم انٹرمیڈیٹ بورد بھجوانے سے انکار کردیا تھا کیونکہ انھوں نے جون 2015 میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کالج میں اساتذہ کی کمی کے باعث کلاسز کی معطلی کے خلاف احتجاج کیا تھا.

گذشتہ برس احتجاج کے لیے کوئٹہ آنے والی لڑکیوں کا کہنا تھا کہ کالج پرنسپل نے کلاسز معطل کردی ہیں.

ڈان نیوز کو موصول ہونے والی ویڈیو میں برقعے میں ملبوس طالبات کے ایک گروپ کو کوئٹہ پریس کلب کے باہر رپورٹر سے بات کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جو تعلیم کے حق کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے وہاں جمع ہوئی تھیں.

مذکورہ ویڈیو میں طالبات کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ کالج میں مرد اساتذہ پڑھائیں، لیکن کالج انتظامیہ اور والدین کے درمیان متعدد ملاقاتوں کے باوجود بھی کلاسز تاحال معطل ہیں.

سیاہ برقعے میں ملبوس ثاقبہ، لڑکیوں کے اس گروپ کی سربراہی کر رہی تھیں.

ثاقبہ کا کہنا تھا کہ 'سیکڑوں لڑکیاں، صرف ایک خاتون (پرنسپل) کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں اور ان کا مستقل داؤ پر لگ چکا ہے'، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم 6 ماہ سے سڑکوں پر بیٹھے ہیں،لیکن کسی نے ایکشن نہیں لیا'.

کالج ذرائع نے تصدیق کی کہ جن لڑکیوں نے احتجاج میں حصہ لیا تھا، انھیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی.

تاہم 2، 3 ماہ قبل باقاعدہ تحریری معافی نامہ جمع کرانے پر کالج انتظامیہ نے ثاقبہ کے علاوہ تمام طالبات کو معاف کردیا، جس کے باعث دلبرداشتہ ہوکر اس نے خودکشی کرلی.

ثاقبہ کے بھائی نے کالج پرنسپل کو اپنی بہن کی خوکشی کا ذمہ دار قرار دیا.

عزیزاللہ نے دعویٰ کیا کہ ان کی بہن کی خودکشی کی وجہ کالج پرنسپل کا رویہ تھا، جنھوں نے محض اس وجہ سے اس کا داخلہ فارم انٹرمیڈیٹ بورڈ نہیں بھیجا کیونکہ ثاقبہ نے چند ماہ قبل کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کالج میں اساتذہ کی کمی کے خلاف ایک مظاہرے کی سربراہی کی تھی.

عزیراللہ کے مطابق انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں شرکت کے لیے داخلہ فارم بھیجنے کی آخری تاریخ 10 فروری تھی.

انھوں نے دعویٰ کیا، 'میری بہن نے پرنسپل سے متعدد بار درخواست کی کہ وہ اس کا داخلہ فارم بھیج دیں لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کی حاضری امتحان دینے کی مطلوبہ تعداد سے کم ہے.'

ان کا کہنا تھا مییری بہن کالج پرنسپل کے مبینہ رویئے سے بہت دلبرداشتہ تھی، جس کے بعد ثاقبہ نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کرلی.

عزیز اللہ نے دعویٰ کیا کہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، مسلم باغ کے طلبہ نے کالج میں تجربہ کار اساتذہ کی کمی کے خلاف احتجاج کیا تھا، کیوں کہ پرنسپل نے گذشتہ 18 برس سے ادارے میں پڑھانے والے مرد اساتذہ کو ہٹا دیا تھا.

ان کا مزید کہنا تھا کہ مرد اساتذہ کی برطرفی کے بعد سے کالج میں بی ایس سی کی کلاسز معطل ہیں.

انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ان کی بہن اور دیگر طلبہ کو مظاہرے میں حصہ لینے اور اساتذہ کو کالج سے ہٹانے کا معاملہ اجاگر کرنے پر کالج پرنسپل اور کلرک اسٹاف کی جانب سے نشانہ بنایا گیا.

عزیزاللہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے کالج پرنسپل سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا.

قلعہ عبداللہ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر عابد بلوچ کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں کیوںکہ ہسپتال انتظامیہ اور طالبہ کے اہلخانہ نے پولیس کو واقعے سے آگاہ نہیں کیا تھا، انھیں ہفتے کو مطلع کیا گیا جب کہ لڑکی کی تدفین جمعے کو ہی کی جاچکی تھی.

انھوں نے بتایا کہ واقعے کی تفتیش کی جارہی ہے.

دوسری جانب بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور وزیر تعلیم رحیم زیارت وال نے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج، مسلم باغ کی 17 سالہ طالبہ کی خودکشی کا نوٹس لے لیا.

صوبائی وزیرِ تعلیم نے واقعے کی تفتیش کے لیے محکمہ تعلیم کے سینیئر افسران پر مشتمل ایک 3 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے پانچ دن کے اندر وزیر اعلیٰ کو انکوائری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (4) بند ہیں

حسن امتیاز Feb 15, 2016 01:07pm
افسوس ناک خبر ہے ۔ پاکستان میں نفسیاتی امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ ہمیں کوشش کرنا چاہے کہ بچوں کی نفسیات کو سمجھے یا ماہرین نفسیات سے رابطہ کریں۔
Ali Asif Jadun Feb 15, 2016 02:25pm
I think she should have organized another protest against college administration for not sending his admission..but rather fight with injustice she become victim of injustice..very sad
فراز Feb 15, 2016 02:48pm
اس افسوسناک خبر کے حساب سے تو کالج پرنسپل کو ماہر نفسیات کی ذیادہ ضرورت ہے۔ جس نے اپنی انا اور ضد کی وجہ سے ایک معصوم کی جان گنوا دی، جو کے صرف اپنے تعلیم کا حق مانگ رہی تھی۔
nasrat naseem Feb 16, 2016 08:48am
پرنسپل کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ کالج کے طالبات کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کا طالبات تو اپنی حق مانگنے کیلیے جدوجہد کی تھی جس سے پرنسپل بدزن کو کر ایک لڑکی کے زندگی کو ہمیشہ کیلیے برباد کیا ۔اس طرح کے پرنسپل کو حق نہیں پرنسپل بنے کا۔ اس پرنسپل کو معطل کرنا چاہیے