پشاور: خیبر پختونخوا کی حکومت نے بے قابو بھتہ خوری سے نمٹنے کیلئے پشاور میں رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ کر دیا۔

وزیر اعلی پرویز خٹک نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے شہر کی سیکیورٹی کی خاطر رینجرز فراہم کرنے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کوخط لکھا تھا۔

خط میں وفاقی حکومت پرزور دیا گیا کہ بھتہ خوری کے خطرے سے نمٹنے کیلئے ایک ہزار اہلکاروں پر مشتمل خصوصی فورس قائم کرنے کی خاطر کے پی پولیس کو فنڈز دیے جائیں۔

’قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد اور آپریشن ضرب عضب کے بعد صورتحال میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، لیکن بھتہ خوری کا مسئلہ دوبارہ کھڑا ہو گیا ہے اور سرحد پار سے ایک بڑا گروپ اس میں ملوث ہے‘۔

انہوں نے ضلع مردان اور چارسدہ میں اچانک دہشت گردی کے واقعات سامنے آنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے شبقدر کو انتہائی ’خطرناک جگہ‘ قرار دیا۔

یاد رہے کہ پیر کو شبقدر میں ایک خود کش بمبار نے مقامی عدالت پر حملہ کیا تھا۔ ’پولیس کو پشاور شہر کے قریب شبقدر پر خاص توجہ دینی ہو گی‘۔

وزیر اعلی نے سرحد پار سے دہشت گردوں کی در اندازی روکنے اور صوبے میں ان کی شرپسند کارروائیاں ختم کرنے سے متعلق 10 رکنی منصوبے پر غور کیلئے وزیر داخلہ سے ملاقات کا وقت بھی مانگا ہے۔

فوج، پیر ملٹری فورسز پہلے ہی پشاور کے نواح ، موٹر وے اور انڈس ہائی وےمیں تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ ایف سی اور فوج پشاور سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں مشترکہ آپریشنز میں مصروف ہیں۔

اس وقت رینجرز مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ میں تعینات ہیں جبکہ ایف سی مغربی سرحد کی نگرانی کر رہی ہے۔

پرویز خٹک نے ایف سی اہلکاروں کے بجائے پشاور میں رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعلی نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ انہوں نے افغان سفیر ڈاکٹر حضرت عمر سے بھتہ خوری کیلئے استعمال ہونے والی افغان موبائل فون سموں کے مسئلہ پر بات کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ افغان سفیر نے انہیں یقین دلایا کہ پشاور ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی حلیم جان کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث شخص کو ضرور پاکستان کے حوالے کیا جائے گا۔

یہ خبر 8 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں