پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاست، سیاسی پارٹیوں، سیاستدانوں ، حکومت، پارلیمانی نظام اور سویلین بالادستی کے چہرے پر اب تک کے آخری فوجی آمر کی طرف سے مارے گئے تھپڑ کی بات سینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی نے اس وقت کی جب قائد حزب اختلاف نے پرویز مشرف کے معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور وزیراعظم کی وہ تقریر پڑھی جو انہوں 13 جون 2013 کو قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لیتے وقت کی تھی۔

جناب محمود خان اچکزئی نے مشورہ دیا کہ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھرانے کے بجائے اس بات پر غور کریں کہ اب کیا کرنا ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے اور وہ شخص جو دبئی پہنچ کر سگار سلگانے سے فارغ نہیں، اس نے تو یہاں رہتے ہوئے بھی ثابت کیا کہ کوئی بھی اسے عدالت نہیں لے جا سکتا، وہ ہم سب کے منہ پر تھپڑ رسید کر کے ملک سے باہر چلا گیا ہے۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دو دن پرویز مشرف کے معاملے پر آدھی ادھوری بحث پر ہی ختم ہوگیا۔ ویسے وہ اجلاس بھی تو پارلیمنٹ یا جمہوری حکومت کو درپیش خطرات کی نشاندہی، ان کو ٹالنے کی حکمت عملی یا کسی طالع آزما کو عزت سے باہر بھیجنے کی وجہ سے حکومت پر بڑھتا دباؤ کم کرنے کے لیے تو بلایا بھی نہیں گیا تھا۔

یہ اجلاس تو بس پی آئی اے کو اونے پونے داموں بیچنے کے فیصلے پر پارلیمنٹ کی مہر ثبت کرنے لیے بلایا گیا تھا لیکن وہ کام بھی نہیں ہوا اور سارا کا سارا اجلاس مشرف کے جانے کے بعد والے منظرنامے کی نظر ہوگیا جس پر وزیرِ داخلہ اس لیے معترض ہیں کہ خوامخواہ معاملہ کو سیاسی بنایا گیا ہے۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس وزیر داخلہ کے اس بے خبری والے بیان کہ ’مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کسی عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے ہوئے ہیں‘، کے بعد ایک نئی تکرار کو جنم دینے پر ہی ختم ہوا اور آخری دن حکومت مخالف جماعتیں وزیر موصوف کی غلط بیانی پر دونوں ایوانوں کا استحقاق مجروح ہونے اور وزیر داخلہ کے خلاف کارروائی پر متفق ہوچکی تھیں۔

ویسے وزیر داخلہ کا یہ بیان بھی تو مشرف کیس میں حکومت کی سنجیدگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بیان اس تنقیدی صورتحال میں حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لے جانے کے لیے کافی ہے۔ موجودہ صورتحال میں وزیر موصوف کس طرح اپنی سچائی ثابت کرسکتے ہیں یا حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے لگائے جانے والے پرویز مشرف سے مک مکا کے الزامات کو کس طرح مسترد کر سکتے ہیں؟

اور پھر ہوا بھی وہی کہ پارلیمنٹ پر مشرف کے معاملے پر تقریر برائے تقریر اور پھر جواب الجواب اور آخر میں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر داخلہ کے خلاف حزب اختلاف تحریک استحقاق لے کر آئی اور اس کو پارلیمنٹ میں جمع کروا دیا گیا۔

وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ہی کچھ دن پہلے ہی حکومت کی پوزیشن تو کلیئر کردی تھی کہ آئین شکنی کے ملزم کو حکومت نے نہیں بلکہ عدالت نے باہر جانے کی اجازت دی ہے، اور پھر پارلیمنٹ کے فورم پر بھی اس بات کو دہرایا کہ "سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹایا جائے۔"

پرویز مشرف کے جانے سے لے کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر تک وزیر داخلہ نے شاید سپریم کورٹ کے اس حکم نامے کے مندرجات کا مطالعہ بھی نہیں کیا تھا کیونکہ وہ عدالت عظمیٰ کے جس فرمان کا حوالہ دے کر بات کر رہے تھے اس بات کا اس حکم نامے میں بالکل ذکر نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے یہ نہیں فرمایا کہ پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے جائے، بلکہ اس معاملے میں تو عدالت کافی حد تک محتاط ہی رہی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ عدالت نے یہ آرڈر ڈکٹیٹ کرنے سے ایک منٹ قبل اپنی آبزرویشن سے اس تاثر کو زائل کر دیا کہ ہم کسی کا نام ہٹانے کا حکم دے رہے ہیں۔

عدالت جب آرڈر لکھوا رہی تھی تو لال مسجد اور غازی عبدالرشید قتل کیس کے وکیل نے پیش ہو کر عدالت میں بالکل وہی بات کی جو آج کل پیپلز پارٹی والے کر رہے ہیں، کہ ملزم کو باہر جانے کی اجازت دی گئی تو وہ واپس نہیں آئیں گے، جس پر جناب چیف جسٹس نے فرمایا کہ ’’ہم کسی کو بھی باہر جانے کی اجازت کا نہیں کہہ رہے، ہم بس وفاق کی اپیل پر فیصلہ کر رہے ہیں‘‘۔

اس لیے تو پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر داخلہ سے مطالبہ کر دیا کہ وہ سپریم کورٹ کا وہ آرڈر پڑھ کر سنا دیں تاکہ بات واضح ہوجائے۔

یہ ہی نہیں بلکہ اعتزاز احسن نے تو عدالت کے آرڈر کا وہ پیراگراف بھی پڑھ کر سنا دیا جسے حکومت پہلے دن سے نظر انداز کر رہی ہے۔ اس پیراگراف میں سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ ’’وفاق کی اپیل مسترد لیکن یہ فیصلہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا۔ حکومت اور خصوصی عدالت جب چاہیں ملزم کی نقل و حرکت روک سکتی ہیں۔‘‘

جب بات قانون کی آئی تو وزیرداخلہ کی سیاسی اور تنقیدی تقریر کو صرف بریک ہی نہیں لگی بلکہ ان کے مزاج کی گرمی کو بھی ٹھنڈا جھونکا سا لگ گیا اوروہ صرف یقین دہانی ہی کروا سکے کہ تفصیلی بحث کے وقت وہ اس فیصلے کو پڑھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس عدالت کا فیصلہ موجود نہیں نہ میں کوئی وکیل ہوں اور اگر وکیل ہوتا تو بھی اتنے بڑے بیرسٹر سے دلائل میں جیت نہیں سکتا۔

یہ معاملہ پہلے دن کا تھا اور دوسرے دن پارلیمنٹ کے اجلاس میں جب سینیٹر سعید غنی وزیر داخلہ کے خلاف تحریک استحقاق لانا چاہتے تھے تو اسپیکر نے ان کی بات سنی ان سنی کر کے فرمایا کہ یہ تحریک پہلے میرے چیمبر میں آئے گی پھر پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ ہوگا۔ اس تحریک کا متن یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے پرویز مشرف کے معاملے پر عدالتی فیصلے کا غلط حوالہ دے کر دونون ایوانوں کا استحقاق مجروح کیا ہے۔

سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن، جنہوں نے اس معاملے پر پوری حزبِ اختلاف کو بریفنگ بھی دی اور ان کو وزیرداخلہ کے خلاف تحریک استحقاق لانے پر آمادہ کیا، کا اجلاس میں کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کے خلاف آئین کی شق 62 اور 63 بھی لگ سکتی ہے جس کا مطلب کسی رکن کو نااہل کیا جانا ہی ہے۔

پارلیمنٹ اور ان کے ممبران یا اس نظام کے چہرے پر تھپڑ کی بات سے مجھے بولی وڈ کی مشہور فلم کرما کے ولن ڈاکٹر ڈین کا وہ ڈائیلاگ یاد آ گیا جس میں وہ پولیس افسر وشو پرتاب سنگھ یعنی دلیپ کمار کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’پرتاب سنگھ ۔۔۔ ڈاکٹر ڈین جنگ شروع کرتا ہے اور ڈاکٹر ڈین کو آج کسی نے پہلی بار تھپڑ مارا ہے۔ اس تھپڑ کی گونج سنی تم نے؟ اب اس گونج کی گونج تمہیں سنائی دے گی، جب تک زندہ رہو گے تب تک سنائی دے گی، مجھے یہ تھپڑ کبھی نہیں بھولے گا۔‘‘

اب اس فلم اور اس کے کرداروں دلیپ کمار اور ڈاکٹر ڈین کو موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کس کے پاس کون سا کردار ہے اور وہ تپھڑ کس نے کس کے منہ پر لگایا اور اس کی گونج کہاں تک سنائی دے رہی ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس یا ایوانوں کے باہر بظاہر مشرف کا نام لے کر اس تھپڑ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس کمزور نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تھپڑ مارنے کا ماحول تیار کرنے والوں، ان کی حمایت کرنے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس طرح کی سازش کرنے والوں کو بے نقاب کرسکیں۔

ان کو روکنے یا ان کا مقابلہ کرنے کی بات تو الگ ہے، اس طرح کے کئی تھپڑ اس ملک کی جمہوریت اور سیاسی نظام کے چہرے پر کئی بار لگ چکے ہیں اور ان کی گونج پھر کسی نئے تھپڑ کی گونج میں شامل ہو گئی ہے۔

جنرل ایوب نے اپنے ہم خیالوں اور ساتھیوں کے ساتھ 1958 میں سیاسی نظام کے منہ پر جو طمانچہ مارا، اس کی گونج جنرل یحییٰ خان کے مارے گئے تھپڑ میں ضم ہوگئی۔ اس گونج کا کوئی حساب ہی نہیں ہوا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے سارے نظام پر ایسی چپیڑ رسید کردی کہ ابھی تک سسٹم سنبھل نہیں سکا۔ ابھی اس کی گونج جاری تھی کہ 12 اکتوبر 1999 آ گیا اور مطلق العنانی کے قدموں کے نشانوں پر قدم رکھتے پرویز مشرف نے رہی سہی کسر نکال دی، اور سب کچھ کرنے کے بعد سب درست ہونے کا درس دیتے دیتے چل دیے۔

اس لیے یہ گونج، جس میں کچھ ہمارے مہربانوں کا بھی ہاتھ ہے، وہ ابھی تو شروع ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں کب تک سنتے ہیں۔

ویسے حکومت تو سب کو یہی مشورہ دینے والی ہے کہ گونج سننے کا کیا فائدہ۔ اب آگے بڑھو اور بھلا دو سب کو۔ اور پھر ایک اور تھپڑ کے لیے تیار ہوجاؤ۔

تبصرے (1) بند ہیں

Canadawala Mar 26, 2016 03:22am
Pakistan was made for certain class to be above law.