"سانحہ بنگال" میں سب کے لیے سبق

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2016
ہندوستان کے ہاتھوں شکست کے بعد بنگلہ دیشی کھلاڑی مایوسی کے عالم میں کھڑے ہیں۔ فوٹو اے پی
ہندوستان کے ہاتھوں شکست کے بعد بنگلہ دیشی کھلاڑی مایوسی کے عالم میں کھڑے ہیں۔ فوٹو اے پی

بنگلہ دیش کی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کارکردگی بہت نمایاں ہے، خاص طور پر محدود طرز کی کرکٹ میں کہ جس میں وہ عالمی کپ 2015ء کو کوارٹر فائنل تک پہنچا، پھر پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو ایک روزہ سیریز میں شکست دی اور حال ہی میں ایشیا کپ کے فائنل تک پہنچا۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر توقع کی جا رہی تھی کہ بنگلہ دیش ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں نئی نویلی توقعات پر پورا اترے گا۔ کوالیفائنگ مرحلے میں تو جیسی جامع کارکردگی بنگال کے "شیروں" نے دکھائی، اس نے کئی "بڑوں" کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی لیکن بدقسمتی سے بنگلہ دیش "گروپ آف ڈیتھ" میں مارا گیا۔

پاکستان کے خلاف کہ جہاں جیت کی توقع سب سے زیادہ تھی، اسے بری طرح شکست ہوئی۔ حوصلے ٹوٹے اور آسٹریلیا کے خلاف فیصلہ کن ضرب نہ لگا سکا لیکن اصل "دل شکن" ہار تو وہ ہے جو ابھی ہولی سے ایک دن قبل ہندوستان کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ بنگلور کے ایم چناسوامی اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش 147 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں بہترین مقام پر تھا۔ پہلی گیند پر چوکے سے لے کر اسی اوور میں کیچ چھوٹنے کی وجہ سے ملنے والی نئی زندگی تک، یہاں تک کہ آخری اوور کی شروعات ہونے پر بھی حالات بنگلہ دیش کے حق میں تھے۔ جب مشفق الرحیم نے دوسری اور تیسری گیند پر ہردیک پانڈيا کو دو کرارے چوکے رسید کیے تو گویا فیصلہ کن ضرب لگ گئی۔

لیکن حقیقت یہی تھی کہ بنگلہ دیش اب بھی ہدف سے 2 رنز دور تھا اور اس حقیقت کا مشفیق، محمود اللہ اور کروڑوں بنگلہ دیشیوں سمیت ہندوستان کی شکست کے خواہاں کروڑوں دیگر کرکٹ شائقین کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ ان کے خیال میں تین گیندوں پر 2 رنز کا مطلب ہے لازمی کامیابی۔ مشفیق نے دوسرا چوکا لگانے کے بعد جشن منانا بھی شروع کردیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جہاں بنگلہ دیش مقابلے پر اپنی گرفت کھو بیٹھا۔ مشفق جذبات کی رو میں بہہ گئے۔

اگلی گیند پر "فاتحانہ چھکا" لگا کر تاریخی کامیابی سمیٹنے کی کوشش ناکام ہوئی اور مشفیق آؤٹ ہوگئے۔ یہی نہیں بلکہ آخری دو گیندوں پر درکار دو رنز کے لیے محمود اللہ جیسا ٹھنڈے دماغ کا بلے باز بھی "جذبات" پر قابو نہ رکھ سکا اور رویندر جدیجا کے کیچ نے بازی پلٹ دی۔ صرف دو گیندیں ہندوستان کو مقابلے میں واپس لے ائیں۔ آخری گیند پر درکار دو رنز تو کجا برابری کے لیے درکار ایک رن بھی نہ دوڑا جا سکا اور انڈیا صرف ایک رن سے جیت گیا اور بنگلہ دیش زخم چاٹتا رہ گیا۔

اس فتح/شکست میں سب کے لیے ایک سبق ہے۔ قبل از وقت ہمت ہار دینا یا کامیابی کا جشن منانا دونوں یکساں طور خطرناک ہیں۔ بنگلہ دیش نے نہ صرف اپنے لیے ایک سنہری موقع گنوایا اور سیمی فائنل کی دوڑ سے اخراج کا سامان کیا، بلکہ ہندوستان کو بھی نئی زندگی عطا کی ہے جو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد ویسے ہی بے حال تھا اور پاکستان کے خلاف میچ میں کامیابی ہی اس کا واحد قابل ذکر کارنامہ تھی۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں