راولپنڈی: لاہور پارک حملے کے بعد فوجی قیادت کی ہدایت پر پنجاب بھر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ روز لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں پارک میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 72 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : لاہور پارک دھماکے میں ہلاکتیں 72 ہو گئیں

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں آپریشن کا فیصلہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی میں ملوث کسی شخص سے رعایت نہیں برتی جائے گی اور نہ ہی کوئی اثرو رسوخ برداشت کیا جائے گا۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ لاہور سمیت پورے صوبے کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے، جبکہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا جائے۔

قبل ازیں جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں ہونے والے اجلاس کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سانحہ لاہور کے بعد پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پنجاب میں گزشتہ روز سے اب تک انٹیلی جنس ایجنسیوں نے آرمی اور رینجرز کی مدد سے لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں 5 آپریشنز کیے، جبکہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

پاک فوج و رینجرز کے آپریشنز کے دوران کئی مشتبہ دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو حراست میں لیا گیا، جن کے قبضے سے بھاری مقدار میں گولہ بارود و اسلحہ برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور پاک دھماکے کے بعد بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا سیکورٹی اجلاس ہوا تھا، جس میں ڈی جی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام نے شرکت کی تھی۔

اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خفیہ اداروں کو واقعے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ معصوم شہریوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

صوبہ پنجاب کا آپریشن لاہور دھماکے کا رد عمل، حسن عسکری

سینئر دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں ہونے والا آپریشن گزشتہ روز لاہور دھماکے کا رد عمل ہے۔

"حکومت پنجاب صوبے بھر میں دہشت گردی کی حوالے سے تفتیش انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے ذریعے کروانا چاہتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے فوج اور رینجرز کی مداخلت نہیں چاہتے"۔

حسن عسکری نے خیال ظاہر کیا ہے کہ فوج کی جانب سے ابتدا کی جاچکی ہے اور یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ آیا پالیسی میں تبدیلی ہے یا یہ کوئی عارضی رد عمل ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ پالیسی کی تبدیلی ہے تو اس سے اختلاف پیدا ہوگا، لیکن اگر یہ عارضی رد عمل ہے تو حکومت پنجاب صوبے میں آپریشن کیلئے تیار نہیں ہے اور اس سے چیزیں پیچیدہ ہوسکتی ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار نے بتایا کہ سول حکومتیں اکثر اس قسم کے گروپس کے خلاف کارروائی میں تذبذب کا شکار ہوتی ہیں۔ اس قسم کے گروپ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں اور ان گروپس کے خلاف فوج اور رینجرز کی مدد حاصل کرنا غیر معمولی عمل نہیں ہے۔

حسن عسکری نے کہا کہ اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سول حکومت کی ذمہ داری یہاں ختم ہوجاتی ہے۔

"یہ ممکن ہے کہ گروپ کو پکڑنے کیلئے یہ عارضی رد عمل ہو، جس کے بعد فوج معاملات کو پنجاب حکومت کے حوالے کردے، اور یا پھر معاملات صوبہ سندھ کی طرح جاری رہیں گے"۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

فیصل Mar 28, 2016 06:02pm
Kya yeh zaroori hai har operation say pehlay bey gunnah log marjain tabhi hi humari fouj kay pass koi jawaz baney gaa operation ka?
sharif wali kharmangi Mar 28, 2016 09:01pm
پنجاب میں اب آپریشن کرکے دہشت گردوں کی سرغنوں کو مارنا ہوگا یا اسی طرح عوام کا خون ہوتے ہوئے تماشا دیکھ کر مذمتی بیان جاری کرتے رہیں۔ حکومت اور ادارے عوام سے مخلص ہیں تو ان انسان دشمن گروپوں کو نیست و نابود کرنا ہی پڑیگا۔
Israr Muhammad khan Mar 29, 2016 01:30am
کسی بھی صوبے وفاقی ادارے کی طرف سے کاروائی کیلئے صوبے کی حکومت سے اجازت لینا لازمی ھوتا ھے ھم پنجاب میں اپریشن کے حلاف نہیں لیکن اسکے لئے قانونی اور آئینی تقاضے پورے کرنے چاہئے پنجاب حکومت اس اپریشن کی مخالفت نہیں کریگی لیکن ضرورت اس بات کی ھے کہ اپریشن کو صرف دھشتگردی تک محدود رکھنا چاہئے یہاں کے آپریشن اور وزیرستان کے اپریشن میں بہت زیادہ فرق ھے پنجاب میں اپریشن تلاشیوں اور گرفتاریوں تک محدود ھوگا وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں تو مصلح اپریشن ھورہا ھے امید ھے کہ پنجاب اپریشن سے دھشتگردی کم کرنے میں مدد ملی گی