مذاکرات کامیاب، مظاہرین نے ریڈ زون خالی کردیا

ریڈ زون میں سیکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد موجود ہے۔ — فوٹو: ڈان نیوز
ریڈ زون میں سیکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد موجود ہے۔ — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: حکومت اور علماء کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنے کے شرکا ریڈ زون خالی کرکے واپس لوٹ گئے۔

ڈان نیوز کے مطابق حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے والے علماء کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد دھرنے کے شرکا نے ٹولیوں کی صورت میں واپسی کا آغاز کیا جبکہ اسٹیج بھی ہٹا دیا گیا، جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں نے بھی شاہراہ دستور کو خالی کردیا۔

اس سے قبل وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ڈی چوک پر موجود دھرنے کے شرکا سے کامیاب مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ ڈی چوک میں کسی کو بھی جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈی چوک میں سیاسی جلسے اور دھرنوں پر پابندی لگادی گئی ہے اور آئندہ کسی کو حکومت کو گلے سے پکڑنے یا یرغمال بنانے نہیں دیا جائے گا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا تھا جس پر 'قابل احترام شخصیات' نے حکومت سے رابطہ کیا۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے.
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے.

'کراچی سے آنے والی دو قابل احترام شخصیات نے معاملے کو سلجھانے کیلئے کردار ادا کیا، جن کی وجہ سے مذاکرات کیے گئے'۔

سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دھرنے کے شرکا کی گرفتاریوں کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی سے ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا ان کو چھوڑ دیا جائے گا جبکہ ایسے افراد جو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے تردید کی کہ دھرنا دینے والوں سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا تاہم ثالثی کرنے والوں سے کیا بات ہوئی؟ وہ اس کی تفصیلات نہیں بتا سکتے۔

دھرنے کے شرکا سے تحریری معاہدے کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ معاہدے کیلئے حکومت کی طرف سے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔

ڈان نیوز کے مطابق اس سے قبل حکومت اور دھرنے کے شرکا کے درمیان مذاکرات کا ذریعہ بننے والے علماء نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے ڈی چوک پر موجود دھرنے کے شرکا کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔

علماء کا کہنا تھا کہ حکومت اور ڈی چوک پر دھرنے کے شرکا کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں جس کے بعد کچھ ہی دیر میں دھرنے کے اختتام کا اعلان کردیا جائے گا۔

علماء نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے منظور کئے جانے والے مطالبات میں شامل ہے کہ علمائے کرام کے خلاف درج مقدمات کی واپسی کا جائزہ لیا جائے گا اور پر امن احتجاج کرنے والوں کو رہا کیا جائے گا۔

'درج مقدمات میں بے گناہ افراد کے ناموں کو خارج کیا جائے گا اور فورتھ شیڈول کی فہرست پر نظرثانی کی جائے گی'۔

علماء کے مطابق حکومت سے طے پایا ہے کہ توہین رسالتﷺ کے مقدمات میں سزایافتہ کسی فرد کو رعایت نہیں دی جائے گی۔

اس کے علاوہ علماء کے دعوے کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ نظام مصطفیٰ ﷺ کے ضمن میں سفارشات مرتب کرکے وزارت مذہبی امور کو پیش کی جائیں گی۔

'میڈیا پر فحش پروگراموں کی روک تھام کے لیے علماء ثبوت کے ساتھ پیمرا سے رجوع کریں گے'۔

خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومت اور دھرنے کے شرکا کے درمیان ثالثی کا کردار اویس نورانی اور حاجی رفیق پردیسی نے ادا کیا تھا۔

یاد رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دینے والی مذہبی تنظیموں کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے دی جانے والی آخری ڈیڈ لائن بھی آج صبح ختم ہوگئی تھی۔

اسلام آباد کے ریڈ زون میں ممتاز قادری کے حق میں مذہبی جماعتوں کا دھرنا چوتھے روز میں داخل ہوا اور دھرنے کے شرکا اور حکومتی نمائندوں مذاکرات کا سلسلہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے کے لیے آج صبح کی آخری ڈیڈلائن دی تھی اور آج ہر صورت میں ریڈ زون خالی کرانے کا اعلان کیا تھا۔

چوہدری نثار کے ڈی چوک خالی کرانے کے اعلان کے بعد ریڈ زون میں سیکیورٹی فورسز اسٹینڈ بائے پر ہیں، رینجرز کے تازہ دم دستے بھی پہنچادیے گئے ، جبکہ پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے 7 ہزار اہلکار بھی حساس ترین علاقے میں تعینات ہیں۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

دھرنے کی وجہ سے گزشتہ تین روز سے میٹرو بس سروس معطل ہے، جبکہ جڑواں شہروں میں موبائل فون سروس بھی بند ہے۔

سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

دوسری جانب اسلام آباد کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور تین دن کے دوران 500 مظاہرین کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا۔

مظاہرین کے خلاف 16 ایم پی او، انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے، کار سر کار میں مداخلت، پنجاب ساؤنڈ ایکٹ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کیے گئے۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے دینے والوں کے خلاف فورتھ شیڈول میں ایک مذہبی رہنما کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

ڈان اخبار کے مطابق عالمی تنظیم اہلسنت کے سربراہ پیر افضل قادری ساتھیوں کے ہمراہ بغیر کسی رکاوٹ کے ریڈ زون پہنچے۔

ضلعی حکومت اور پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے پیر افضل قادری کی آمد سے متعلق کسی قسم کی ہدایت جاری نہیں کی، اس لیے اُنہیں اسلام آباد میں داخلے سے نہیں روکا گیا۔

’سرینڈر کرنے والوں کیخلاف طاقت کا مظاہرہ نہیں ہوگا‘

اسلام آباد کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) رضوان گوندل کا ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز سرینڈر کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعال نہیں کرے گی، ہم آپریشن کے لیے تیار ہیں سینئر حکام کے احکامات کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو مکمل ہدایت کردی گئی ہے، مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے صورت میں ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آنسو گیس کا بھی استعمال کیا جائے گا۔

مظاہرین کے مطالبات

تحریک لبیک یارسول اللہؐ کی قیادت میں گزشتہ چار روز سے جاری دھرنے کے شرکا نے حکومت کو 10 مطالبات پیش کیے ہیں۔

ان مطالبات میں زیر حراست کارکنوں اور مذہبی رہنماؤں کی غیر مشروط رہائی، ان کے خلاف دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت تمام مقدمات واپس لینے، ممتاز قادری کو شہید کا درجہ دینے، ان کے اڈیالہ جیل کے سیل کو قومی ورثے کا درجہ دینے، توہین مذہب کے قانون میں ترمیم نہ کرنے کی یقین دہانی، جبکہ احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کو اہم عہدوں سے ہٹانے کے مطالبات شامل ہیں۔

دھرنے کے شرکا کی جانب سے توہین مذہب کی ملزم عاسیہ بی بی کو پھانسی دیے جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Mar 31, 2016 12:35am
یہ بات خوش آئند ھے کہ دھرنا ختم ھوگیا لیکن یہ بات ثابت ھوگئی کہ حکومت نے بہت کمزوری دکھائی یہ درست ھے کہ پرامن احتجاج سب کا حق ھے لیکن پرتشدد مظاہروں اور سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا جرم ھے سڑک بند کرنا حکومت اور حکومتی اداروں کے حلاف نفرت انگیز تقاریر کرنا بھی جرم ھے مزہبی جزبات کو اشتعال انگیزی میں تبدیل کرنا بہت بڑا جرم اور ظلم ھے اس کے سدباب کیلئے اقدامات کرنے ھونگے فرقہ واریت پھیلانا مسلکی اختلافات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا بند کرنا ھوگا حکومت کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ھوئی جو قابل افسوس ھے لیکن مظاہرے کے قائدین نے آپریشن کے ڈر سے اخر میں اپنے تمام مطالبات سے پیچھے ہٹ گئے گرفتاری اور مقدمات سے بچنے کیلئے اسلام کے نفاز کا مطالبہ بھی چھوڑ دیا اور قادری کو شہید اعظم قرار دینے سے بھی پیچھے ہٹ گئے جو انکی اسلام اور دین سے محبت اور پیار کا جیتا جاگتا ثبوت ھے یہ ھے انکا اصلی چہرہ کچھ نہ کرنے والے لیڈران بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے گئے اور عریب اور نادان پیروکاروں کو سڑک پر پیدل چلنے کیلئے چھوڑ دیا