لاہور: صوبہ پنجاب میں راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیان دریائے سندھ کے ایک جزیرے میں گینگسٹرز نے کم از کم 3 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر 25 پولیس اہلکاروں کو اُس وقت یرغمال بنالیا جب سیکیورٹی فورسز نے جزیرے کے جنگل میں داخل ہونے کی کوشش کی.

ایک سینیئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا، 'جب کچھ پولیس اہلکاروں نے مذکورہ جزیرے میں داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں شدید جھڑپوں کا آغاز ہوگیا.'

انھوں نے دعویٰ کیا کہ گینگسٹرز نے کچی مورو کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کے دوران 6 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ 25 پولیس اہلکاروں کے اغواء کا بھی دعویٰ کیا ہے.

رحیم یار خان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ذیشان اصغر کا کہنا تھا کہ 'چھوٹو گینگ کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے.'

ان کا کہنا تھا کہ جزیرے کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے پولیس کے ایک دستے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، تاہم انھیں دستے میں موجود پولیس اہلکاروں کی درست تعداد کا علم نہیں تھا.

ایک سینیئر پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ یہ 'نقصان ' ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کو راجن پور میں فضائی کارروائی سے متعلق ان کی درخواست پر حکومت کی جانب سے خاطر خواہ ردعمل موصول نہیں ہوا.

مزید پڑھیں: راجن پور میں گینگسٹرز کے خلاف فضائی کارروائی

انھوں نے کہا کہ آخر کار پولیس نے اس خطرناک جزیرے پر زمینی آپریشن کا فیصلہ کیا، جس کے بعد گینگسٹرز کے ساتھ شدید لڑائی کا آغاز ہوا.

مذکورہ اہلکار کا مزید کہنا تھا، 'ہم مجرموں کے حملے کی زد میں ہیں، جن کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور کئی پولیس اہلکاروں نے انھیں 12.7 ایم ایم بھاری طیارہ شکن گن کا استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے'.

انھوں نے مزید کہا کہ جرائم پیشہ افراد کی جانب سے شدید مزاحمت سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ کچھ کالعدم تنظیمیں بھی یہاں موجود ہوسکتی ہیں.

دوسری جانب پولیس حکام نے آپریشن کے دوران چھوٹو گینگ کے ایک اہم کمانڈر پہلوان عررف پلو کی ہلاکت کا دعویٰ کیا.

ایک پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف زمینی آپریشن کوئی اچھا آئیڈیا نہیں تھا، لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ پولیس کی جانب سے ہیلی کاپٹر گن شپ فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی تھی.

انھوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کی درخواست اس تصدیق کے بعد کی گئی تھی کہ گینگسٹرز یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں.

مذکورہ عہدیدار نے مزید بتایا کہ جس جزیرے میں یہ گینگسٹرز موجود ہیں وہ دریائے سندھ کے بالکل درمیان میں ہے، '10 سے 12 فٹ اونچی گھاس اور جھاڑیاں پولیس اہلکاروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، جبکہ گینگسٹرز انھیں (پولیس) کو زیادہ بہتر پوزیشن سے نشانہ بنا سکتے ہیں'.

ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد سے ملحق اس جنگل میں 150 کے قریب خطرناک جرائم پیشہ افراد پناہ لیے ہوئے ہیں.

پولیس عہدیدار کے مطابق سدوانی، عمرانی اور مزاری قبیلے کی ایک ذیلی ذات سکھوانی سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد اس شورش زدہ علاقے میں رہائش پزیر ہیں.

ذرائع کے مطابق آپریشن کی قیادت کرنے کا دعویٰ، اس 'ناقص حکمت عملی' کے پیچھے موجود بڑے عوامل میں سے ایک تھا، جو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا باعث بنا.

ان کا کہنا تھا کہ عسکری حکام نے گذشتہ برس نومبر میں اس علاقے میں خالصتآ رینجرز آپریشن کی تجویز دی تھی لیکن پنجاب حکومت نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی.

یہ بھی پڑھیں:راجن پور آپریشن میں 3 پولیس اہلکار ہلاک

پنجاب پولیس کی ترجمان نبیال غضنفر کا کہنا تھا کہ قریبی اضلاع کے 1600 سے زائد پولیس اہلکار 'آپریشن ضرب آہن' میں حصہ لے رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ 350 ایلیٹ کمانڈوز، پاکستان رینجرز کی ایک پلاٹون اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکار بھی اس آپریشن کا حصہ ہیں.

انھوں نے 3 اہلکاروں کانسٹیبل قاضی عبید اور امان اللہ اور ایلیٹ کمانڈو محمد اجمل کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی.

دوسری جانب رحیم یار خان میں پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ گینگسٹرز نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے بدلے یرغمال پولیس اہلکاروں کی رہائی کے حوالے سے ایک پیغام بھیجا ہے، جبکہ انھوں نے محفوظ انخلاء کا بھی مطالبہ کیا ہے.

چھوٹو گینگ کا فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان

چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول عرف چھوٹو نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

چھوٹو گینگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے جس کی وجہ سے وہ گینگ بنانے پر مجبور ہوئے۔

متوقع فوجی آپریشن کے حوالے سے چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول کا کہنا تھا کہ وہ پاک فوج کے حامی ہیں اور ان کے سامنے ہتھیار ڈال سکتے ہیں۔

غلام رسول عرف چھوٹو نے مزید کہا کہ 'میں را کے ایجنٹ نہیں ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پولیس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گئے تاہم فوج کے سامنے ہتھیار ڈال سکتے ہیں۔

اس رپورٹ کی تیاری میں ڈیرہ غازی خان سے طارق برمانی اور رحیم یار خان سے ملک عرفان الحق سے بھی مدد لی گئی.

یہ خبر 14 اپریل 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ahmaq Apr 14, 2016 11:26am
who should be blamed?