موسمی تبدیلیوں سے پاکستان کو لاحق خطرات

17 اپريل 2016
دنیا جس مسئلہ کو دہشتگردی سے بڑا قرار دے چکی ہے، اس پر پاکستان میں بات بھی نہیں ہو رہی۔ — اے ایف پی فوٹو
دنیا جس مسئلہ کو دہشتگردی سے بڑا قرار دے چکی ہے، اس پر پاکستان میں بات بھی نہیں ہو رہی۔ — اے ایف پی فوٹو

عالمی برادری موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات بھانپ چکی ہے۔ ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ اور برطانیہ کے چیف سائینٹفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ ماحولیات، موسمی تبدیلیوں کو دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں اور نیشنل اکیڈمی آف سائنس، آئی پی سی سی اور ورلڈ میٹرولوجیکل ایسوسی ایشن متفق ہیں کہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے پر اب کوئی اختلاف نہیں ہے۔

دنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے گلوبل وارمنگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار ، متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

لندن کی انوائرمنٹل جسٹس فاؤنڈیشن کے مطابق دنیا میں 26ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور 2050تک 500سے 600ملین لوگ مزیدہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ شدید خطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔ طبی جریدے سائنس کے مطابق موسمی تبدیلی، بعض جانوروں کی نسلوں کی معدومیت ، زمین کے استعمال میں تبدیلی، اور نامیاتی کھادوں کے باعث پید اہونے والی آلودگی جیسے چار عوامل سے انسانیت خطرے کے زون میں داخل ہو چکی ہے۔ سائنسدان عالمی حدت میں اضافہ کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدا ر کا فضا میں اخراج قرار دیتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس، کوئلہ ، تیل سے توانائی پیدا کرنے کے ماحول پر منفی اثرات انسانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ مضر رساں ہیں۔

کوئلہ توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70فی صد زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے، دیگر عوام بھی ماحول کو تباہی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کے رقبہ میں آگ ، بلند و بالا عمارتیں، برھتی ہوئی آبادی، گاڑیوں کی بہتات وغیرہ شامل ہیں موحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں زیر بحث آ چکے ، عالمی برادری ان خطرات سے نبرد آزما ہونے کیلئے آج یعنی 17اپریل کو مل بیٹھ کر امن و سیکورٹی پر ماحول کی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لے گی ۔

اس اجلاس میں 55ممالک کے ماہرین ، سفارتکارا ور سیاستدان بیٹھیں گے اور حتمی نتائج اخذ کر کے آمدہ خطرات سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دینگے ۔ پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثراث چند برسوں سے واضح ہونے کے باوجود اس حساس اور سنگین مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں ، اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کو شامل کر رکھا ہے جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔ ویب آف سائنس کے مطابق واٹر ٹاور آف ایشیا ہمالیہ، ہندوکش، اور قراقرم قطب شمالی و قطب جنوبی کے بعد برف کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور یہی پہاڑی سلسلے دریائے سندھ کی روانی کے ضامن بھی ہیں۔

ماہرین کے مطابق 1920سے عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں 1.9ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں برف پگھلنے سے ڈیم بھر رہے ہیں، نئی جھلیں بن رہی ہیں اور موسمی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی پینل آئی پی سی سی کے مطابق بڑے پیمانے پر پانی ضائع ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے نجی ادارے ویرسک میل کرافٹ ورسک میل کرافٹ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء کے متعدد شہر موسمی تبدیلی کے باعث خطرہ میں ہیں۔ پاکستان ، بھارت، اور بنگلہ دیش کے 1.4ارب انسانوں کو سیلاب، زلزلہ کا سامنا ہے، قدرتی آفات سے اپنے بچاؤ کی صلاحتع کی کمی کے باعث پاکستان کی 70 فیصد بھارت کی82 فیصداور بنگلہ دیش کی 100 فیصد آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔

پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں، شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے سربراہ آصف انعام کی تحقیق کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے زیر آب آ چکے ہیں جبکہ 2050تک سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین پانی میں ڈوب چکے ہونگے۔

ماہرین ماحولیات متعدد مرتبہ اس خدشہ کا اظہار کر چکے ہیں کہ سمندر کی سطح میں تیزی سے اضافہ کے باعث 2060تک دو کروڑ سے زائد آباد ی کا شہر کراچی زیر آب آ سکتا ہے، سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں سمندر کی سطح میں اضافہ زیر زمین پانی میں کمی خشک سالی، سیلاب و دیگر موسمی تبدیلیوں سے جڑے مسائل کی وجہ سے ہزاروں گھرانے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ متعد د گھرانے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

مستقبل میں موسمی تبدیلیوں کی ہولناکی سے لاکھوں خاندان ایسے ہی خطرات سے دوچار ہونگے۔صنعتی سرگرمیوں کے دو بڑے مراکز چین اور بھارت کے درمیاں ہونے کی وجہ سے پاکستان گوناں گوں ماحولیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار پانی پر ہے جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے حصے کو صاف پانی میسر نہیں، پانی کے بحرا ن میں مبتلا اس ملک کی پانی سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں۔ آبی ذخائر بنانے اور دریاؤں ، ندی ، نالوں کا پانی نامیاتی و صنعتی و دیگر آلودگی سے محفوظ رکھنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی آباد ی 2050تک تین سو ملین سے تجاوز کرچکی ہو گی۔ بڑھتے ہوئے ملک کو لاحق موسمی خطرات کا اندازہ چینی گیٹ وے ، پاسو کی طرح پگھلتے گلیشئرز سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں 20برس قبل برف تھی آج بہت سے حصے خالی ہیں۔

ماہرین گزشتہ برس سینٹ کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو آگاہ کر چکے ہیں، کہ آمدہ عشروں میں ملک کے شمال اور جنوب میں درجہ حرارت میں تین تا پانچ ڈگری اضافہ ممکن ہے جسکے نتیجے میں بھیانک تباہی ہو سکیی ہے۔ مگرحکومت نے بظاہرماہرین کے انتباہ کو خاطر میں نہیں لایا۔ غیر متوقع بارشیں، سیلاب ، خشک سالی، لینڈ سلائیڈنگ ، زلزلے ، زیر زمین پانی کی سطح میں تشویشناک حد تک کمی، پگھلتے ہوئے گلیشئرز ، موسمی تبدیلیوں کی واضح علامات ہیں مگر دنیا جس مسئلہ کو دہشتگردی سے بڑا قرار دے چکی ہے، اس پر پاکستان میں بات ہی نہیں ہو رہی جو کہ قومی المیہ ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

syed Irshad Ali Shah Apr 18, 2016 12:33am
i am a student of PhD in China and working on Climate Change. I have requested Pakistan Meteorological Department for weather data, but according to PMD only a limited data is available free of cost for academic research Purpose. According to rate given on Website of PMD, if i work on my proposed project i have to purchase data from PMD of 1.5 million Rupees. I am working on Impact of extreme weather events on agriculture. i cant afford to purchase, therefore i have changed my research project. I was wondered that high quality research was not available in this field in Pakistan. Now i realized that what was the reason behind this. Researcher cant get specific data from government departments, even some department have fake data just like agriculture statistics of Pakistan. I have seen SCI research Papesr of Dr Ghulam Rasool DG of PMD, So someone should be DG of PMD for getting Weather data.
لیاقت علی خٹک Apr 18, 2016 01:31am
جیسا کہ میرے بھائی نے موسمیاتی تبدیلیوں او گلوبل وارمنگ سے آنے والے خطرات کے بارے میں لکھا ہے۔ یہ بھی ایک موسمیاتی دہشتگردی ہے، پچھلے سال کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے کافی اموات ہوئیں تھیں۔ اس دہشتگردی سے نمٹنا کوئی مشکل نہیں،ملک میں کنسٹرکشن کا کام عروج پر ہے، کوئی پلاننگ نہیں ہے، اور اس کنسٹرکشن کے لیے درختوں کی بے دریخ کٹائی کی جاری ہے، اپ مری کی مثال لیجئیے، مری کو ملکہ کوہسار کہا جاتا ہے، لیکن آج کل مری اور اسلام آباد کے موسم اور ٹمپریچر میں کوئی فرق نہیں رہا، اسلام آباد اور مری میں اس موسم میں پھنکے چل رہے ہیں، وہ اس لیے کہ سب سے زیادہ ہوٹلز مری میں ہیں، ہوٹلز بنانے کے لیے مری میں درختوں کی بے دریخ کٹائی کی گئی، جس کی وجہ سے مری میں بھی موسم سخت گرم ہوگیا۔ جہاں پر بھی درخت کم ہوں گے وہاں پر گرمی ضرور پڑے گی۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ درختوں کی کٹائی پر سختی سے پابندی لگائی جائے، اور جہاں پر درخت نہیں ہیں وہاں پر نئے درکٹ لگائے جائیں، عوام بھی درختوں کی کٹائی سے پرہیز کریں، اور اپنے گھروں کے اطراف میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں، جس سے ہم گرمی پر کنڑول کر سکتے ہیں۔ شکریہ۔
عبدالحفیظ Apr 18, 2016 11:25am
پاکستان میں موسمیاتی دہشتگردی پر اشرافیہ اور انتظامیہ بھلا کیوں دھیان نہیں دے رہے؟ کیونکہ اِس دہشت گردی سے انہیں اور اِن کی اولادوں کو کوئی مسئلہ نہیں۔ جِن کے واش روم تک میں اے۔ سی ہو اُن کی بلا سے ہیٹ سٹروک سے مرنے والے پاکستانی جائیں بھاڑ میں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کر کے اِن بابوئوں اور اُن کے آقاؤں کومالی فائدہ بھی زیادہ نہیں ہو گا ، اِس لئے اِس کام پر وہ ہاتھ نہیں ڈالیں گے۔ خٹک صاحب نے بجا فرمایا، آئیں جو ہم کر سکتے ہیں وہ کریں، ایک درخت نہ کاٹیں اور دوسرا درخت لگانا شروع کریں
جارج Apr 18, 2016 03:23pm
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ دنیا کے جن بڑے خطروں کی بابت بڑے بڑے ممالک پریشان ہیں وہ انہی کے پیدا کردہ ہیں، ایجادات کرنا اور اُن کو بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے عام کرنا انہی بڑے ممالک کے تحفے ہیں جس نے ان کی حماقت اور جہالت واضح ہوتی ہے، نیز دہشت گردی بھی انہی کا بویا ہوا بیج ہے جس سے دنیا کی 98 ٪ عوام متاثر ہے۔ گلوبل وارمنگ ہو، نوائس پولیوشن، انڈسٹریل پولیوشن۔۔۔ یہ سب مغرب کے پیدا کردہ ہیں، خدا ان سے سمجھے جنھوں نے دنیا کو ترقی کی آر میں جہنم میں جھونک دیا ہے، اخلاقی قدروں کو پھانسی کے گھاٹ چڑھا کر دنیا کے عوام کو کنزیومر اور 1٪ کو سرمایہ دار بنا دیا ہے۔ خدا فرعونوں کو موسیٰ (ع) سے آشنا کرے۔ آمین یا رب العالمین
سہیل یوسف Apr 18, 2016 04:03pm
بہت سے اعداد وشمار درست نہیں۔ برائے مہربانی یاد رکھیں کہ ٹھٹھہ ، شاہ بندر، بدین کےساحلی علاقوں میں سمندری سطح بلند نہیں ہوئی بلکہ دریائے سندھ کا بہاؤ کم ہونے سے سمندری پانی اوپر چڑھا ہے جسے سی انٹروشن کہتے ہیں۔ اسی طرح 1920 سے درجہ حرارت بڑھنے کے اعدادو شمار کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ پاکستان میں کلائمٹ چینج پر لکھنے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ معلومات اور ڈیٹا کی شدید قلت کو اپنے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ ماہرین سے معلوم کرکے کوئی بات لکھیں۔
سہیل یوسف Apr 18, 2016 04:05pm
@syed Irshad Ali Shah برادر آئینِ پاکستان کےتحت ہر طرح کی معلومات کی رسائی آپ کا حق ہے۔ اگر متعلقہ ادارے آپ کو معلومات نہیں دے رہے تو آپ وفاقی محتسب سے شکایت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ایچ ای سی سے ببھی مدد لی جاسکتی ہے۔
Naveed Awan Apr 18, 2016 06:35pm
جس طرح ابرار حیدر صاحب نے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں لکھا اور عوام کواس بارے میں آگاہ کیا اصل میں یہ کا حکومتوں کو کرناچایئے ہے حکومتوں کے پاس تو وسائل بھی ہوتے ہیں حکومت کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے میٹرک تک تعلیم میں موسمیاتی تبد یلیوں کے حوالہ سے نصاب میں شامل کرنا چاہیے تا کہ ہماری آنے والی نسل کو اس بارے میں پتہ چل سکے حکومت کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالہ سے ملک کے ہر ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ز پر سیمینار کا انعقاد کروانا چاہیے تا کہ عوام کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں پتہ چل سکے کہ موسمیاتی تبدیلی کیوں اور کس وجہ سے ہوتی ہے اور میں اس میں کیا کردار ادا کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔