مانسہرہ کی 2خواتین افسران تبدیلی لانےکیلئےکوشاں

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2016
اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سونیا شمروز خان (دائیں) اوراسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر عظمیٰ شاہ (بائیں)—۔فوٹو/ ڈان
اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سونیا شمروز خان (دائیں) اوراسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر عظمیٰ شاہ (بائیں)—۔فوٹو/ ڈان

مانسہرہ: صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں 2 خواتین افسران اپنی ملازمتوں کو ایک چیلنج کے طور پر لے کر معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لانے کی خواہش مند ہیں۔

مانسہرہ، خیبر پختونخوا کا وہ واحد ضلع ہے، جہاں 2 خواتین پولیس اور محکمہ خوراک میں تعینات کی گئی ہیں۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) سونیا شمروز خان اور اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر (اے ایف سی) عظمیٰ شاہ مقامی افراد کے لیے کچھ اجنبی ہیں، جنھیں ضلع میں صرف مرد افسران کو ہی دیکھنے کی عادت تھی، تاہم دونوں خواتین افسران نے اپنے اپنے شعبہ میں اپنے کام کے ساتھ اپنی صلاحیتوں اور لگن کو ثابت کردیا یے۔

صوبے کی پہلی خاتون پولیس افسر اے ایس پی سونیا کا کہنا تھا، 'میں پولیس میں اس تصور کو غلط ثابت کرنے کے لیے آئی ہوں کہ خواتین کمزور ہیں اور جذباتی معاملات میں رونا شروع کر دیتی ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ خواتین فوج، ایئرفورس اور دیگر شعبوں میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں لیکن پولیس کے شعبے میں آنے سے کتراتی تھیں، 'میں اُن سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اس شعبے میں بھی آئیں'۔

سونیا کا مزید کہنا تھا کہ خواتین افسران، خواتین کے مسائل زیادہ بہتر انداز میں سمجھ کر انھیں آسانی سے حل کرسکتی ہیں، 'اگرچہ ہمیں اس فیلڈ میں کام کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ مانسہرہ جیسے علاقے میں بھی لوگوں نے مختلف شعبوں میں خواتین افسران کو قبول کرنا شروع کردیا ہے۔'

some_text

          میں پولیس میں اس تصور کو غلط ثابت کرنے کے لیے آئی ہوں کہ خواتین کمزور ہیں اور جذباتی معاملات میں رونا شروع کر دیتی ہیں
                                                            —سونیا شمروز

اے ایس پی سونیا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے علاقے میں جرائم کی شرح میں واضح کمی واقع ہوئی ہے کیوں کہ وہ بذات خود رات میں علاقے میں گشت کرتی ہیں اور اپنے ماتحتوں پر نظر رکھتی ہیں، ان کا کہنا تھا، 'مشکل معمولات کے باوجود مجھے اپنے شعبے سے پیار ہے اور میں اسے انجوائے کرتی ہوں، میں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی گھریلو زندگی قربان کردی ہے'۔

اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر (اے ایف سی) عظمیٰ شاہ بھی پورے صوبے میں محکمہ خوراک کی پہلی خاتون افسر ہیں، وہ بھی صحت اور تعلیم کے شعبوں کے علاوہ کوئی شعبہ اپنانا چاہتی تھیں، ان کا خیال ہے کہ 80 فیصد سے زائد خواتین ان ہی دونوں شعبوں میں جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس معاشرے میں ابھی بھی خواتین کو بطور افسران قبول کرنے میں وقت لگے گا، لیکن میں اس حوالے سے پر امید ہوں'، عظمیٰ نے بتایا، 'میں باقاعدگی سے بازاروں کا دورہ کرتی ہوں اور دکانوں اور مارکیٹوں پر چھاپہ مارتی ہوں تاکہ مضر صحت اشیاء کو فروخت ہونے سے روکا جاسکے۔'

مضر صحت اشیاء اور فوڈ آئٹمز کی فروخت کی باقاعدگی سے چیکنگ عظمیٰ کی ملازمت کا حصہ ہے اور حال ہی میں جب انھوں نے اس حوالے سے بفہ میں ایک کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو مقامی تاجروں نے ان کی سرکاری گاڑی ہر دھاوا بول دیا لیکن پھر پولیس کی مداخلت سے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹا لیا گیا۔

some_text

          اس معاشرے میں ابھی بھی خواتین کو بطور افسران قبول کرنے میں وقت لگے گا، لیکن میں اس حوالے سے پر امید ہوں
                                                            —عظمیٰ شاہ

عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مظاہروں سے مضر صحت اشیاء کے خلاف میرے عزم میں کوئی دراڑ نہیں آسکتی، جو کہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق محکمہ خوراک کے افسران خلاف ورزی کرنے والوں پر کم از کم 5 ہزار جرمانہ کرسکتے ہیں، جس پر چھوٹے تاجر مشتعل ہوجاتے ہیں۔

عظمیٰ کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم صارفین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بزنس کمیونٹی کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیئے، ان کا کہنا تھا، 'میرا خیال ہے کہ جرمانے کی کم از کم 5 ہزار روے کی رقم کو کم کیا جانا چاہیے تاکہ چھوٹے تاجر بھی اسے باآسانی ادا کرسکیں'۔

یہ خبر 25 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

mohammad haq Apr 25, 2016 07:59pm
I am so proud of you.Please keep up the good work, Whenever one takes the leadership position , some tomatoes are thrown .A good leader leads the people and bring Positive changes, Wishing you good luch and success