لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے مسیحی طلاق ایکٹ 1869 کی وہ شق بحال کردی، جس کے تحت مسیحی شخص اب بیوی کو، اس کی عزت نفس برقرار رکھتے ہوئے طلاق دے سکے گا۔

1981 میں جنرل ضیا الحق کے دور میں ایکٹ سے، آرڈیننس کے ذریعے سیکشن 7 ہذف کردیا گیا تھا، جس کے بعد مسیحی شخص کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ طلاق دینے کے لیے خاتون پر بدچلنی کا الزام لگائے۔

مسیحی طلاق ایکٹ کی یہ شق بحال کرنے کا حکم امین مسیح نامی شخص کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سامنے آیا، جو اپنی بیوی کو بدچلنی کا الزام لگائے بغیر طلاق دینا چاہتا تھا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مسیحی طلاق ایکٹ میں ترمیم سے مسیحی جوڑوں کو طلاق حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا ہے، لہٰذا ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا حکم دیا جائے۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ شیراز ذکا نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے سیکشن 10 کے تحت مسیحی مرد کے پاس اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے صرف بدچلنی کا جواز موجود ہے جو خواتین کی عزت نفس کے خلاف ہے، تاہم سیکشن 7 کی بحالی کے بعد اس کے پاس طلاق دینے کے مزید کئی جواز موجود ہوں گے۔

سرکاری وکیل حنا حفیظ اللہ نے کہا کہ مسیحی طلاق ایکٹ کے تحت مسیحی خواتین کی عزت کوتحفظ فراہم کرنا لازمی ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے درخواست کی سماعت کے بعد ایکٹ کا سیکشن 7 بحال کرتے ہوئے 1981 کے آرڈیننس کو خلاف قانون قرار دیا۔

یہ خبر 24 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Inder Kishan Thadhani May 24, 2016 09:43pm
کیا ظلم ہے کہ طلاق لینے والی عورت کو کومپرو مائز کرکے بدچلنی کا داغ قبول کرنا پڑتا ہوگا !! یہی وہ ظلم ہیں جن کی وجہ سے سیاسی رہنمائوں کی حکومتیں نہیں چلتیں، چاہے بینظیر تھی یا نواز شریف ۔۔۔