اسکندر مرزا اور 9 جون کا ضروری کام

09 جون 2016
اگر جون 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کی معیاد ملازمت میں توسیع نہ ہوتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ یوں لہو لہان نہ ہوتی — تصویر بشکریہ وکی پیڈیا
اگر جون 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کی معیاد ملازمت میں توسیع نہ ہوتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ یوں لہو لہان نہ ہوتی — تصویر بشکریہ وکی پیڈیا

اگر کوئی پوچھے کہ کیا کاغذ کا چھوٹا سا پرزہ ملکی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے تو اس کا جواب شاید نا میں ہو لیکن یہ کا غذ کا چھوٹا سا پرزہ اگر کسی سرکاری عہدے دار کے ہاتھ سے گزر کر نکلا ہو تو وہ یقیناً ملکی تاریخ پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ 9 جون 1958 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ایوان صدر کی اسٹیشنری سے پھٹے سرکاری کاغذ کے ایک چھوٹے پرزے نے پاکستان کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔

یہ بات بھی ماننی پڑتی ہے کہ بظاہر معمول کے نظر آنے والے دن بعض اوقات بڑے ہی غیر معمولی بن جاتے ہیں اور قوموں کی تاریخ کا منہ موڑ دیتے ہیں۔ ٹھیک 58 برس پہلے 1958 کا 9 جون بھی ایک ایسا ہی منفرد دن تھا جس نے پاکستان کی تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔

9 جون 1958 کی اس گرم دوپہر دھوپ میں شدت کچھ زیادہ تھی۔ مشہور بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب اپنے دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ اس وقت کے صدر پاکستان، صدر اسکندر مرزا حسب معمول پورے ایک بجے اپنے کمرے سے اٹھ کر قدرت اللہ شہاب کے دفتر کی کھڑکی کے پاس آئے اور پوچھا۔ ''کوئی ضروری کام باقی تو نہیں؟" شہاب نے نفی میں جواب دیا تو اسکندر مرزا خدا حافظ کہہ کر ایوان صدر میں اپنے رہائشی حصے کی طرف روانہ ہوگئے۔ تھوڑی دور چل کر وہ اچانک رکے اور مڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتے واپس قدرت اللہ شہاب کے کمرے میں آ گئے۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ بولے۔ "میں ایک ضروری بات تو بھول ہی گیا"۔ یہ کہہ کر انہوں نے قدرت اللہ شہاب کی میز سے پریذیڈنٹ ہاؤس کی اسٹیشنری کا ایک ورق اٹھایا اور وہیں کھڑے کھڑے وزیراعظم فیروز خان نون کے نام ایک دوسطری نوٹ لکھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کے احکامات فوری طور پر جاری کردیے جائیں۔

اس پر انہوں نے most immediate کا لیبل اپنے ہاتھوں سے پن کیا اور قدرت اللہ شہاب کو حکم دیا کہ وہ ابھی خود جا کر یہ نوٹ پرائم منسٹر کو دیں اور ان کے عملے کے حوالے نہ کریں۔ یہ مختصر سا پروانہ بڑی عجلت اور کسی قدر بے پروائی کے عالم میں لکھا گیا تھا لیکن کاغذ کے اس چھوٹے سے پرزے نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

1958 میں مارشل لا نافذ ہونے کے بعد اسکندر مرزا جنرل ایوب خان اور دیگر مسلح افواج کے سربراہان کے ساتھ کھڑے ہیں
1958 میں مارشل لا نافذ ہونے کے بعد اسکندر مرزا جنرل ایوب خان اور دیگر مسلح افواج کے سربراہان کے ساتھ کھڑے ہیں

اگر جون 1958 میں جنرل محمد ایوب خان کی معیاد ملازمت میں توسیع نہ ہوتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ یوں لہو لہان نہ ہوتی۔

پاکستانی تاریخ کے اس انتہائی اہم دن کو پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" میں بڑے منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔

"9 جون 1958 کو سیکرٹری دفاع نے مجھے بتایا کہ آپ کے عہدے کی معیاد میں 2 برس کی توسیع ہوگئی ہے ۔ اس کا اعلان دوپہر کو ہوگا ۔ یہ توسیع کس طرح عمل میں آئی اور اس کے بارے میں میرا رد عمل کیا تھا اس کی کیفیت مندرجہ ذیل سگنلز سے معلوم ہوگی۔"

وزیراعظم فیروز خان نون کی جانب سے کمانڈر ان چیف پاک آرمی کے نام مورخہ 9 جون 1958۔

"مجھے بڑی خوشی ہے کہ آپ نے دو برس تک ہماری افواج کے کمانڈر ان چیف کے عہدے پر رہنا منظور کر لیا ہے۔ آپ ابھی بہت کم عمر ہیں، آپ کی عمر ابھی صرف 51 سال ہے لیکن تجربے اور قابلیت میں نہایت پختہ کار ہیں۔ پاکستان موجودہ حالات میں آپ کی خدمات سے محرومی کا نقصان کسی طرح برداشت نہیں کرسکتا اور مجھے یقین ہے کہ پہلے کی طرح ملک کا دفاع آپ کے ہاتھوں میں محفوظ رہے گا۔"

کمانڈر ان چیف کا جواب

"میں اپنی ملازمت کی توسیع پر آپ کے تعریفی اور حوصلہ افزا پیغام پر شکر گزار ہوں۔ ذاتی طور پر مجھے سبکدوشی پر بھی ویسی ہی خوشی ہوتی جیسے اس عظیم الشان فوج کی خدمت کا مزید موقع ملنے پر ہوئی جس کی تعبیر میری عمر بھر کی تمنا رہی ہے۔

بہر حال میں نے 31 برس تک اس کا نمک کھایا ہے اور میں نے جو کچھ حاصل کیا اس کی بدولت اور وہ اسی کی ملکیت ہے۔ آپ مطمئن رہیں میری بہترین خدمات فوج اور اس کے ذریعے ملک کی خدمت کے لیے وقف رہیں گی۔"

تاریخ بتاتی ہے کہ 1948 میں قائداعظم نے فوجی افسر ایوب خان کو مہاجرین کی آبادکاری کی سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی۔ سردار عبدالرب نشتر نے قائداعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خان نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔

29 دسمبر 2001 کو ڈیلی ڈان میں چھپنے والے تنویر زاہد کے ایک خط derailment of democracy کے مطابق، قائداعظم نے ایوب خان کی فائل پر لکھا تھا۔

"میں اس آرمی افسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔"

تنویر زاہد کا دعوٰی ہے کہ یہ خٖفیہ فائل کیبینٹ ڈویژن میں موجود ہے جسے ابھی تک ڈی کلاسیفائی نہیں کیا گیا۔

Soldiers of misfortune کے مصنف ایس ایم کوریجو کے مطابق قائد اعظم اگر زندہ رہتے تو جنرل ایوب خان فورسٹار جنرل بننے سے پہلے ہی ریٹائر ہوجاتے۔

مشہور لکھاری قیوم نظامی اپنی کتاب جرنیل اور سیاستدان تاریخ کی عدالت میں رقم طراز ہیں کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد ایوب خان اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور 1950 میں جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل بن گئے۔ یہ فوج میں ایک اہم پوزیشن تھی۔

اس منصب کی وجہ سے وہ طاقت کے مراکز کے قریب ہوگئے۔ پاک فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے اپنی مدت ختم ہونے پر ایوب خان کو نیا کمانڈر ان چیف بنانے کی سفارش کی، تاہم وزیراعظم کو انتباہ کیا کہ اس کی سیاسی خواہشات پر نظر رکھی جائے۔

اکتوبر 1958 میں ملک کے سیاسی حالات بدتر ہوگئے۔ 7 اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا نے حکومت ختم کرنے، اسمبلیاں توڑنے اور ملک میں مارشلا لا نافذ کرنے کا اعلان کرکے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو مارشل لا کو منتظم اعلی مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ جنرل ایوب خان مزید اختیارات چاہتے تھے جس پر صدر اسکندر مرزا نے 24 اکتوبر 1958 کو انہیں ملک کا وزیراعظم بنادیا۔

1958 میں مارشل لا نافذ ہونے کے دوسرے دن روزنامہ ڈان کا صفحہ اول
1958 میں مارشل لا نافذ ہونے کے دوسرے دن روزنامہ ڈان کا صفحہ اول

کہا جاتا ہے کہ 27 اکتوبر 1958 کی رات دس بجے جنرل ایوب خان کی ایما پر تین جرنیلوں جنرل واجد علی برکی، جنرل اعظم خان اور جنرل کے ایم شیخ نے بندوق کی نوک پر صدر اسکندر مرزا سے ان کے استعفے پر دستخط کروالیے اور یوں ملک کے تمام اعلی ترین عہدے جنرل ایوب خان کی ذات میں اکٹھے ہوگئے۔

مندجہ بالا تمام حقائق اپنی جگہ مگر ایک بات طے ہے کہ اسکندر مرزا کے "ضروری کام " نے نہ صرف ان سے کرسی صدارت کا عہدہ چھینا بلکہ ان کے حصے میں لندن کی جلا وطنی بھی آئی۔

اس دن کے بعد ملک میں جمہوریت کی جلاوطنی کا " کھیل" کئی مرتبہ کھیلا گیا۔ کاش! 9 جون 1958 کی اس گرم دوپہر صدر اسکندر مرزا کو جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کا "ضروری کام" یاد نہ آتا۔ کاش!!!

تبصرے (4) بند ہیں

حسن اکبر Jun 10, 2016 12:31am
محمد فیاض راجہ کے مضمون کے ’’اس وقت‘‘ شائع ہونے ’’کچھ اور بھی‘‘ بیان کررہا ہے ۔
Daudpota Jun 10, 2016 01:01am
what a nice column you wrote! very well done...
Naveed Chaudhry Jun 10, 2016 10:45am
Asalam O Alaikum, Yes I agree. Although Pakistan had most economic development in his period yer marshal law is unacceptable. On the other hand seeds of separation of East Pakistan were also planted in his period. Forces in Pakistan have assumed powers beyond their mendate. Although as a nation we are corrupt but forces are same. So as a nation we need to take steps to curtail their power , All authorities should remain in their constitutional limits. Police and judiciary should independent of burn racy and politician. They should be able to investigate about anybody yet should be able to arrest anybody without court orders. If poli ce or for that mater any civil or armed forces do something wrong including blaming without proof than they should be punished by courts This could a basic start up and I hope one day we will become better nation. May GOD ALLMIGHTY help us.
زیدی Jun 10, 2016 02:04pm
@Naveed Chaudhry مشرف کے لئے بھی یہی بیان ہوگا