چیئرمین سنی اتحاد کونسل پاکستان صاحبزادہ حامد رضا کی اپیل پر سنی اتحاد کونسل کے 40مفتیان کرام اپنے اجتماعی فتویٰ میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو غیر اسلامی فعل اور بد ترین گناہ کبیرہ قرار دے دیا ہے۔

اجتماعی فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو جائز سجھنا کفر ہے۔خواتین کو پسند کی شادی کرنے پر زندہ جلانا اسلامی احکامات کے منافی ہے۔ عورتوں کو زندہ جلانا کفر ہے۔آگ میں جلانے کی سزا رب تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کیلئے جائز نہیں ہے۔

فتوی میں کہا گیا ہے کہ اسلام نے بالغ عورتوں کو خد اپنی مرضی سے پسند کی شادی کرنے کا حق دیا ہے جیساکہ سورۃ البقرٰہ کی آیت نمبر 232 میں اس کا حکم بیان ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ اے عورت کے خاندان والو ، عورتوں کو اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے منع نہ کرو جبکہ وہ دونوں شادی کرنے پر راضی ہیں ‘‘اسلام غیرت کے نام پر قتل جیسے قبیح فعل کی ہر گز ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔

مزید پڑھیں: ہائے ری عورت

فتویٰ میں کہا گیا ہے اسلام اسلامی ریاست کے حکمرانوں کیلئے عورتوں کے حقوق کا تحفظ فرض قرار دیتا ہے اس لئے حکومت عورتوں کے قتل کے واقعات کو روکنے کیلئے مؤثر قانون سازی کرے اور عورتوں کو قتل کرنے او ر زندہ جلانے کے قبیح فعل کو ناقابل معافی ، ناقابل مصالحت اور نا قابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔

اجتماعی فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ایبٹ آباد، مری اور لاہور میں خواتین کو زندہ جلانے کے واقعات نے معاشرے کو لرزا دیا ہے ۔ یہ واقعات اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم سماجی اور معاشی لحاظ سے پسماندگی کی طرف جارہے ہیں۔

فتویٰ میں مطالبہ کیا کہ حکومت غیرت کے نام پر قتل اور عورتوں کو زندہ جلانے جیسے واقعات کو روکنے کیلئے سخت قوانین بنائے ۔ ایسے واقعات ملک اور اسلام کی بد نامی کا باعث ہیں۔لڑکیوں کو زندہ جلانے والے ملزمان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: قتل تنازع حل کرنے کیلئے 9 سالہ بچی ’ونی‘

خیال رہے کہ یہ فتویٰ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں 'غیرت کے نام پر' قتل کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے صوبہ پنجاب کے دورالحکومت لاہور میں پسند کی شادی کرنے والی نوجوان لڑکی کو مبینہ طور پر اس کی والدہ نے جلا کر قتل کردیا تھا۔

دو روز قبل لاہور میں ہی والد نے خاندان کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی کرنے پر اپنی بیٹی، داماد اور ایک اور شخص کو قتل کردیا۔

اس کے علاوہ گزشتہ ماہ 31 مئی کو مری میں 5 ملزمان نے رشتے سے انکار کرنے پر ماریہ بی بی نامی اسکول ٹیچر کو مبینہ تشدد کے بعد آگ لگا کر کھائی میں پھینک دیا تھا۔

مزید جانیں: 'غیرت' کے نام پر سات سال میں تین ہزار قتل

اس سے قبل رواں برس اپریل میں بھی صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہزارہ کے شہر ایبٹ آباد میں اسی قسم کا ایک دلخراش واقعہ رونما ہوا تھا، جہاں ایک نام نہاد جرگے کے اراکین، ایک 16 سالہ لڑکی عنبرین کو ایبٹ آباد میں ایک خالی مکان میں لے گئے اور نشہ آور ادویات کے ذریعے بے ہوش کرنے کے بعد اس کا گلا گھونٹ کر قتل کردیا۔

بعدازاں عنبرین کی لاش کو سڑک کنارے کھڑی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

ahmaq Jun 13, 2016 08:57am
yeh sab jaantey heyn- fatwa (islamic law) kiy zaroorat naheyin thee- logon ko samjhao
زیدی Jun 13, 2016 11:53am
@ahmaq یہ بھی سمجھانے کا ایک طریقہ ہے