اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں

27 جون 2016
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

ہارٹ سرجری کے بعد وزیر اعظم کی طبیعت بحال ہونے لگی ہے اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے لندن کے ہائیڈ پارک کے قریب اپنی رہائش گاہ سے حکومتی معاملات کو دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ وزرا اور کچھ اعلیٰ بیوروکریٹس کو بھی بریفنگ کے لیے بلایا گیا ہے، لیکن ابھی کچھ معلوم نہیں کہ ان کی ملک میں آمد کب متوقع ہے۔ بظاہر وہ اس معاملے پر ڈاکٹر کے مشورے کے منتظر ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف کو ملک چھوڑے کچھ ہفتے ہو چکے ہیں۔ ان کی بیماری کی سنجیدگی اور عجلت پر کوئی شکوک شبہات نہیں۔ مگر وزیر اعظم کے اعلیٰ عہدے کے ساتھ ایک بڑی ذمہ داری بھی لاگو ہوتی ہے جس سے لمبے عرصے تک غیر حاضر نہیں رہا جاسکتا۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران دور سے اپنی سیاسی جماعت کی رہنمائی کرنا کافی عام بات ہے، مگر شاید ہی کسی حکومتی پیش رو نے ملک سے باہر بیٹھ کر حکومتی معاملات چلائے ہوں۔

مگر اس ملک میں نواز شریف کی حکومت میں سب کچھ ممکن ہے۔ قوم کی تاریخ میں پہلی بار وزیر اعظم نے وڈیو لنک کے ذریعے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کی منظوری دی۔ کسی باضابطہ سرکاری اعلامیے کی بجائے قوم کو وزیراعظم کی صحت کی حالت کے بارے میں معلومات زیادہ تر ان کی بیٹی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ یا ان کے کچھ وزرا کی جانب سے کبھی کبھار جاری ہونے والے بیانات کے ذریعے حاصل ہو پاتی ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والی تصویر میں وہ خاتون اول کے ساتھ ہائیڈ پارک میں ٹہلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

یقیناً نواز شریف اپنی حکومت کے روز مرہ کے معاملات چلانے کے حوالے سے سوائے اپنے پرانے وفاداروں اور قریبی رشتے داروں کے کسی اور پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتے۔ نہ ہی ایسا کرنے کی آئینی اجازت ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ جماعت کی ذمہ داری کو اپنی بیٹی مریم کے سپرد کرچکے ہیں، جو کہ وزیر اعظم ہاؤس کا قلعہ سنبھال رہی ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ پیچیدہ پالیسی کے فیصلوں میں بھی شامل ہیں۔

یوں لگ رہا ہے کہ جمہوریت سے زیادہ ایک شاہی خاندان برسراقتدار ہو۔ ریاست اور حکومت چلانے کے ایسے غیر رسمی طریقے نے ایک افراتفری میں اضافہ کردیا ہے۔ اس طرح ان کی جماعت میں بھی بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ اس بد نظمی کا عکس قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن میں دیکھنے کو ملا تھا۔ شاید یہ بجٹ پر سب سے زیادہ سرد بحث تھی۔ حکومتی بینچوں پر ارکان کی غیر حاضری کی وجہ سے اکثر ہاؤس کورم کی کمی سے دوچار رہا۔

حکومت کی اس بے ترتیبی کو خارجہ پالیسی کے معاملے پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس خلا کو فوج پر کر رہی ہے جو ایک طویل عرصے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دیکھ رہی ہے۔ خارجہ امور پر اجلاس جی ایچ کیو میں منعقد ہوا جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ وزارت خارجہ کے سینئر افسران نے شرکت کی۔

اس طرح کے اجلاس کی مثال نہیں ملتی۔ جی ایچ کیو میں اعلیٰ سویلین عہدیداروں کے ساتھ میز کی دوسری جانب بیٹھے جرنیلوں کی تصویر دیکھ کر شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

بلاشبہ سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے اہم معاملات پر سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان مشاورت بہت ضروری ہے، مگر اجلاس کے لیے جی ایچ کیو کے مقام کا انتخاب اور اجلاس کی جاری ہونے والی تصاویر نے کافی لوگوں کی بھنویں اوپر چڑھ گئیں۔

وزیر اعظم کی سرجری بھی پانامہ اسکینڈل کے درمیان واقع ہوئی جس میں ان کا گھرانہ بھی شامل ہے۔ اپوزیشن نے خاندانِ اول کے بیرونی اثاثوں کے ذرائع کی تحقیقات کے مطالبے نے حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج رکھ دیا ہے جس نے حال ہی میں اپنی مدت کے تین سال پورے کیے ہیں، جو کہ نواز شریف کا بطور وزیر اعظم پچھلے حکومتی ادوار کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

ماضی کی طرح اس بار بھی وزیراعظم کے لیے حکومتی سفر آسان نہیں ہوگا؛ حکومت ایک کے بعد دوسرے بحران سے لڑکھڑاتی آ رہی ہے۔ یقیناً ان میں پانامہ اسکینڈل سب سے زیادہ سنجیدہ ہے۔

ان کی بیماری نے شاید انہیں کچھ آرام دلوایا ہو مگر نواز شریف کے مسائل ابھی حل ہونے سے کوسوں دور ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کو توڑنے کے حکومتی اقدامات اور ٹرمز آف ریفرنس پر مذاکرات کے معامالات کو کھینچتے رہنے نے دباؤ کم کرنے میں کوئی مدد نہیں کی ہے۔

احتجاج کے طریقوں میں اختلاف کے باوجود اپوزیشن پانامہ معاملے پر تحقیقات کی شروعات وزیر اعظم اور ان کی گھرانے سے شروع کرنے کے مطالبے پر ایک دکھائی دیتی ہے۔ حکومتی نمائندوں کو یہ قبول نہیں جس کے نتیجے میں حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان مذاکرات مکمل طور پر تعطل کا شکار ہیں۔

حکومت کی حکمت عملی ہے کہ مذاکرات کو طول دیا جائے۔ احتساب کے معاملے پر وزرا اور دیگر نواز شریف کے وفاداروں کی آوازوں میں کرختگی بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پاناما اسکینڈل معاملہ بہت پہلے ہی اپنی شدت کھو بیٹھا ہے۔

بہرحال یہ تدابیر کار آمد نظر نہیں آتی۔ شاید یہ حقیقت ہو کہ پانامہ اسکینڈل پر عوام غم و غصہ کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آئے، مگر اس طرح حکومت پر اعتماد بہت بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور اس مسئلے کے ختم ہونے کی بہت ہی کم امید ہے۔

جبکہ پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی اپوزیشن جماعتیں سیاسی عمل کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتیں، مگر پی ٹی آئی اسے نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کروانے کے ایک موقعے کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس منصوبے کو پی ٹی آئی کے ملک گیر حکومت مخالف تحریک کے پلان اور طاہر القادری کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپسی نے اور بھی تقویت بخش دی ہے۔ حکومت کے کئی نمائندے 2014 کے دھرنے کی طرح اس اقدام کو بھی اسکرپٹ کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔

جو بھی ہو مگر اس مفروضے میں تھوڑی بہت گنجائش ضرور ہے، 2014 میں جب حکومت نے ابھی اپنی مدت کا سال ہی پورا کیا تھا اس کے مقابلے میں اس بار صورتحال زیادہ خراب ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ ایک ہی صف میں کھڑی ہونے والی سیاسی قوتیں حکومت کے مخلاف مائل نظر آتی ہیں۔

فوج کے ساتھ تناؤ میں شاید کمی آئی ہو مگر ان تعلقات کو خوشگوار نہیں کہا جاسکتا۔ اب بھی کافی ایسے مسائل ہیں جو طاقت کے ان دو مراکز میں بے چینی پیدا کر رہے ہیں۔ لمبے عرصے تک وزیر اعظم کی منظر عام سے غیر حاضری اور خراب گورننس خلا کو پر کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئے۔

نواز شریف مزید مشکل حالات میں واپس آئیں گے۔ مگر یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب آئیں گے۔ مسائل صرف یہاں تک ہی محدود نہیں، بلکہ اب بھی بہت سی چیزوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت کس طرح پانامہ اسکینڈل پر اپوزیشن کے ساتھ نمٹتی ہے۔

ان کے لیے سب سے بہترین آپشن یہ ہی ہے کہ وہ خود کو اور اپنی خاندان کو غیر جانبدار تحقیقات کے لیے پیش کر دیں۔ شاید اس مسئلے کے پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کا فیصلہ کبھی بھی حتمی نہ ہو پائے۔

نواز شریف نے اپنی حکومت کی مدت کے تین سال گزار دیے ہیں جبکہ پچھلی دو حکومتوں میں وہ اتنی مدت نہیں گزار پائے تھے جس کی بڑی وجہ جرنیلوں سے تنازع تھے۔ اب جبکہ حکومتی مدت میں دو سالوں سے بھی کم وقت بچا ہے تو شاید وہ اس بار اپنی 5 سالہ مدت کو پورا کرنے کی توقع کر رہے ہوں۔

اس کے لیے انہیں نہ صرف سخت ہو رہی اپوزیشن سے نمٹنا ہوگا بلکہ انہیں اپنے پیچھے اثر رسوخ بڑھاتی ہوئی فوج پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ پہلے ہی کافی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور اب ذرا بھی غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ اپنی مدت پوری کرتے ہیں یا نہیں یہ صرف وقت ہی بتائے گا۔

لکھاری مصنف اور صحافی ہیں.

[email protected]

ٹوئٹر: @hidhussain

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 جون 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں