ملتان: چھوٹے بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے والی ماڈل اور سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کی نماز جنازہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ان کے آبائی علاقے شاہ صدر الدین میں ادا کی گئی، جس کے بعد انھیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

دوسری جانب ملتان کے ایک ڈیوٹی مجسٹریٹ نے قندیل کے قتل کا اعتراف کرنے والے ان کے بھائی وسیم کو 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

مزید پڑھیں:ماڈل قندیل بلوچ 'غیرت کے نام' پر قتل

اس سے قبل اتوار 17 جولائی کی صبح قندیل کی میت ان کے آبائی علاقے لائی گئی، جہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔

ذرائع کے مطابق جنازے سے قبل قندیل کی رشتہ دار خواتین نے مقامی روایت کے مطابق ان کے ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگائی جبکہ ان کی والدہ بار بار ان کے ہاتھ چوم رہی تھیں۔

قندیل بلوچ کے بھائی اور 2 شادی شدہ بہنیں بھی ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:قندیل بلوچ تھیں کون؟

میڈیا سے بات کرتے ہوئے قندیل کے والد محمد عظیم نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے وسیم کے خلاف کیس لڑیں گے۔

ان کا کہنا تھا، 'وہ میری بیٹی نہیں، بیٹا تھی۔ میں نے اپنا بیٹا کھو دیا، وہ وسیم سمیت ہم سب کی مدد کرتی تھی، جس نے اسے قتل کردیا۔'۔

محمد عظیم کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے قندیل کی 'کامیابیوں' پر ناخوش تھے اور اس کے خلاف ہوگئے تھے، باوجود اس کے کہ وہ ان کی مدد کرتی تھی۔

مزید پڑھیں:بیٹے ملزمان، باپ مدعی : ’قندیل کا کیس کمزور پڑ جائے گا‘

دوسری جانب گاؤں کے میکنوں نے بھی قندیل کے قتل کو 'سفاک عمل' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

اس سے قبل سٹی پولیس افسر (سی پی او) اظہر اکرام نے ہفتہ 16 جولائی کو ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس کے دوران ملزم وسیم نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے قندیل کو غیرت کے نام پر قتل کیا اور اسے اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:قندیل کو قتل سے قبل نشہ آور دوا دی، بھائی کا اعتراف

ملتان میں قندیل کے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے ڈان کو بتایا کہ مقتولہ نے اپنے بھائی وسیم کے لیے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا۔

ان کا کہنا تھا، 'یہ بات ناقابل یقین ہے کہ وہ اپنے اُسی بھائی کے ہاتھوں قتل ہوئی، جس کی شادی کرانے کے لیے وہ کوششیں کر رہی تھی'۔

یہ خبر 18 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں