محترم منظر عباسی طویل عرصے کے بعد بیرونِ ملک سے تشریف لائے ہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ان کی وجہ سے خود ہماری اصلاح ہوتی رہتی ہے۔

ہماری خواہش تو یہ ہے کہ وہ ہماری طرح دوسروں کی غلطیاں پکڑنے کے بجائے اپنے علم و مطالعے سے اردو زبان کے حوالے سے طالبانِ علم کو فیض پہنچائیں۔

انہوں نے اپنے محبت نامے میں لکھا ہے کہ ’’لفظ اٹھکیلیاں پر بجا گرفت کی ہے، البتہ انشاء اللہ خان انشا کا جو مصرع لکھا ہے اس میں ’’اٹکھیلیاں‘‘ کا املا اٹھکیلیاں بھی درست ہے۔ ملاحظہ ہو اردو لغت (تاریخی اصول پر) جلد اول‘‘۔

سند میں انشا ہی کا شعر دیا ہے:

کیا بھلی لگتی ہے اٹھکھیلی کسی کی واہ واہ

اور وہ نامِ خدا اٹھتی جوانی کی امنگ

(ص 169)

کھلی چھٹی کے سلسلے میں عرض ہے کہ لفظ ’’چھٹی‘‘ کو چھوٹ کا مترادف بھی تو مانا جا سکتا ہے۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ لفظ چھٹی چھوٹ ہی سے بنا ہے۔ اتوار 29 مئی کے جسارت میں صفحہ 12 پر چیف جسٹس والی خبر کی ذیلی سرخی کے ابتدائی الفاظ ہیں ’’30 سال مارشل لا کی نظر ہوگئے۔‘‘

کیا کمپوزر کو نَذْر اور نظر کا فرق نہیں معلوم؟ (اس غلطی میں کمپوزر کا کوئی قصور نہیں۔ اُسے تو جو لکھ کر دیا جاتا ہے ویسا ہی ٹائپ کر دیتا ہے۔ جس سب ایڈیٹر نے نظر اور نذْر کا فرق ملحوظ نہیں رکھا، ذمے دار وہ ہے۔ پڑھنے سے گریز کی وجہ سے پوری امید ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہوسکتا ہے)۔

منظر عباسی مزید توجہ دلاتے ہیں کہ ’’اتواری مخزن‘‘ (سنڈے میگزین) کے صفحہ 8 پر شائع ہونے والے مضمون میں ’’اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے‘‘ والے شعر کو علامہ اقبال کا قرار دیا گیا ہے، جب کہ یہ شعر صفی لکھنوی کا ہے اور اس مصرعے میں ’’اسلام‘‘ کی جگہ ’’اس دین‘‘ ہے۔

یہی شعر کیا، ہم نے اور کئی اشعار علامہ سے منسوب کر دیے ہیں جن میں سب سے مشہور تو یہ ہے:

تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

اب چونکہ اس میں عقاب آگیا تو سمجھ لیا گیا کہ یہ یقیناً علامہ کا ہے جن کا پسندیدہ پرندہ عقاب ہے۔

اتفاق سے یہ شعر سیالکوٹ ہی کے ایک وکیل صاحب صادق حسین کا ہے۔ اس شعر کے بارے میں ایک نائی کی دکان پر بحث ہو رہی تھی۔ نائی نے بحث سنتے ہوئے بڑے وثوق سے کہا کہ یہ شعر اقبال کا نہیں ہے کیونکہ اس میں عقاب گھبرایا ہوا ہے اور علامہ صاحب کا عقاب ’’گھبرتا‘‘ نہیں ہے۔

نائی بھی خاصے ذہین اور ادب شناس ہوتے تھے۔ ایک مغنی اعظم ہند کا تعلق بھی اسی پیشے سے تھا۔ علامہ سے ایک اور شعر منسوب کردیا گیا ہے جو قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ ہے یعنی ’’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔‘‘ رہی یہ بات کہ ’اس دین‘ کی جگہ ’اسلام‘ نے لے لی ہے تو یہ عوام کی اصلاح ہے اور کئی ایسے اشعار ہیں جن میں عوام کی اصلاح زیادہ مقبول ہوگئی ہے۔

محترم منظر عباسی نے اسی شمارے میں مزید پکڑ کی ہے۔ صفحہ 25 پر علامہ راشد الخیری کی حمد کے ایک شعر کا پہلا مصرع یوں چھپا ہے ’’شاہنشاہ جہاں ہے‘‘۔ یہاں شاہنشاہ کے بجائے ’’شاہنشہ (بغیر دوسرے الف کے) درست ہے۔ صفحہ 27 پر محترم احمد حاطب صدیقی کے مضمون کے تیسرے کالم میں فارسی کے مشہور نعتیہ شعر کا پہلا مصرع یوں درج ہوا ہے ’’ہزار بار بشویم دہن ز عطر و گلاب‘‘۔ یہ مصرع ہم نے تو اس طرح پڑھا تھا ’’ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب‘‘۔ واللہ اعلم بالصواب۔

منظر عباسی صاحب! اس توجہ سے پڑھنے اور اصلاح کرنے کا شکریہ۔

ایک محاورہ ہے ’’آڑے وقت میں‘‘۔ عموماً ایسے ہی پڑھا اور سنا ہے۔ لیکن دراصل یہ ’’اڑے وقت میں‘‘ ہے۔

حالی کا مصرع صحیح تو یاد نہیں آرہا لیکن انہوں نے بھی کچھ یوں کہا تھا ’’اڑے وقت میں تم باہر نہ جھانکو‘‘۔ یعنی برے وقت کے لیے کچھ بچا رکھو کہ دوسروں کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔ نوراللغات میں ہے ’’اڑے وقت، مصیبت کے وقت‘‘۔ اڑے وقت کا گہنا۔ خواتین اس چیز کی نسبت کہتی ہیں جو سخت ضرورت کے وقت کام آنے کے قابل ہو۔

عورتوں ہی کی زبان میں ’’اڑی مشکل‘‘ بھی کہا جاتا تھا، یعنی مشکل میں مشکل، سخت گھڑی۔ جیسے ’’یا اللہ، اس کی اڑی مشکل آسان کردے‘‘۔ خود ’’اڑی‘‘ کا لفظ ہندی کا ہے اور مطلب ہے مشکل کا وقت، مصیبت کا زمانہ۔ داغ دہلوی کا شعر ہے:

مدام سر پر مصیبت پڑی نہیں رہتی

ہمیشہ یار کسی کی اڑی نہیں رہتی

ایک مثل ہے ’’اڑی ڈری قاضی جی کے سر پڑی‘‘۔ یعنی پرائی بلا اپنے سر آئی۔ کشتی کا ایک پیچ بھی اڑی کہلاتا ہے۔ دہلی والوں کا ایک محاورہ ہے ’’اڑے تھڑے میں‘‘۔ یعنی ضرورت، مصیبت کے وقت۔ داغ دہلوی کا شعر ہے:

کریں نہ قدر دل کی تو اور کس کی کریں

اڑے تھڑے میں ہمارے یہ کام آتا ہے

ایک اور اصطلاح بہت عام ہے ’’آڑے ہاتھوں لینا‘‘۔ پتا نہیں سیدھے ہاتھوں کیوں نہیں لیتے کہ ہاتھ آڑے کرنے پڑتے ہیں۔ امید ہے کہ اہلِ علم حضرات اس پر روشنی ڈالیں گے کہ ہاتھ آڑے کیسے ہوگئے۔ لغت میں اس کا مطلب تو موجود ہے کہ ’’آڑے ہاتھوں لینا‘‘ قائل کرنا، لتاڑنا، شرمندہ کرنا، دندان شکن جواب دے کر دوسرے کو چپ کروانا۔ اس حوالے سے ناسخ کا شعر ہے:

چارہ گر ہوں گے تجھے کپڑے چھڑانا مشکل

آڑے ہاتھوں مری وحشت کبھی ایسا لے گی

اسی طرح ’’آڑے آنا‘‘ بھی ہے یعنی برے وقت پر کسی کی مدد کرنا، حمایت کرنا، پناہ میں لینا۔ بحر کا شعر ہے:

ٹل گئی غیر کے سر پر مرے سر کی آفت

مرے آڑے بخدا میری وفائیں آئیں

آڑے آنا کی جگہ کچھ شاعروں نے آڑے ہونا بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن آڑے آنا زیادہ مستعمل ہے۔

داغ دہلوی پر یاد آیا کہ ان کے یوم وفات پر ایک چینل پر ان کے بارے میں بڑا اچھا پروگرام پیش کیا گیا۔ بس ہوا یوں کہ پروگرام پیش کرنے والے صاحب نے داغ کی ’’تصانیفات‘‘ کا ذکر بھی کئی بار کیا۔ شاید بہت سی تصانیف ہوں تو وہ تصانیفات کے زمرے میں آجاتی ہوں۔ ’’جذباتوں‘‘ کا استعمال بھی تو آج کل عام ہوگیا ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


متعلقہ مضامین

'ہوئے مر کے ہم جو رسوا'

چیل چوک اور اقبال کا شاہین

اردو املا کا مسئلہ

تبصرے (2) بند ہیں

emran haider Aug 20, 2016 07:31pm
Bouhat Khoob
یمین الاسلام زبیری Aug 22, 2016 05:38pm
محترم اطہر ہاشمی صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے مظہرعباسی صاحب کا یہ مضمون ہم تک بڑھایا۔ میں مظہر صاحب کے مضامین فرائیڈے اسپیشل میں پڑھتا رہتا ہوں، اور اپنی غلطیاں درست کرتا رہتا ہوں۔ اگر آپ ان کے مضامین ہم تک اسی طرح پہنچاتے رہیں تو قوم کا بھلا ہوگا۔