لاہور: پنجاب حکومت کے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر لاہور ہائی کورٹ نے کام روکنے کا حکم دیا ہے۔

11 ثقافتی ورثوں کا ذکر کرتے ہوئے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان تمام عجائبات پر خصوصی احاطے کے قوانین لاگو ہوتے ہیں، جب تک ان جگہوں کی حفاظت کے حوالے سے نئی رپورٹ نہیں پیش کی جاتی تب تک ٹرین منصوبے پر کام معطل رہے گا۔

منصوبے سے ثقافتی ورثے اور ماحول کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ڈٓائریکٹر جنرل محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے جاری کردہ نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ(این او سی) کے مطابق ٹرین کے ٹریک کی تعمیر قدیم عمارتوں سے 200 فٹ دور بنائی جائے گی۔

عدالت نے حکم دیا کہ ڈی جی محکمہ آثار قدیمہ نے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے این او سی جاری نہیں کیے، اور عالمی ادارہ برائے تعلیم ،سائنس اور ثقافت (یونیسکو) سمیت دیگر عالمی تنظیموں کے خودمختار ماہرین سے رابطہ کرنے کا حکم دیا۔

گذشتہ سماعت میں عدالت نے پنجاب کے خصوصی احاطے کے آرڈینینس 1985 اور عہد قدیم کے 1975 کے قانون کے تحت عجائبات کے 200 فٹ احاطے میں منصوبے پر کام کرنے کے لیے پنجاب حکومت کو اجازت دے دی تھی، لیکن لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی کمیشن نے 11 میں سے 5 عجائبات پر کام کرنے میں قانون کی خلاف پر فیصلہ کو معطل کردیا۔

عدالتی فیصلہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی (ڈبلیو ایچ سی) کےاستنبول میں ہونے والے 40 ویں اجلاس میں اورنج لائن منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد آیا، جس میں پنجاب حکومت منصوبے پر غور کرنے کی درخواست کی، جس میں لاہور شالیمار گارڈن کا ذکر بھی کیا گیا جو کہ دنیا کے قدیم ورثوں کی فہرست میں شامل ہے۔

تنظیم کے اجلاس میں پنجاب حکومت کو تکنیکی معلومات کے حوالے سے بھی یاد دلایا گیا جس میں ایچ آئی اے ،او یو وی، کی مشترکہ رپورٹ بھی شامل تھی، حکومت سے دوبارہ دیگر عالمی تنظیموں سے اس حوالے سے تحقیق کرانےکا مطالبہ بھی کیا گیا۔

عدالت نے ثقافتی ورثوں کو محفوظ بنانے کے لیے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر متعلقہ حکومت سے دوبارہ نظر ثانی کرنے کا حکم دیا۔

ورثے کی حفاظت

صوبائی حکومت عدالتی حکم کے آنے کے بعد میٹرو پروجیکٹ پر تیزی سے کام کر رہی تھی کہ دوسرا فیصلہ آنے کے بعد سول سوسائٹی نے اپنی کامیابی کا جشن منایا۔

سول سوسائٹی کی کارکن مریم حسین نے عدالتی حکم پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ حکمرانوں کو قانون توڑنے سے روکنے کے لیے اب بھی کوئی موجود ہے۔

دوسری جانب لاہور بچائو تحریک کے شریک بانی اعجاز انور نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ یہ دیگر منصوبے پر بھی اثر انداز ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ حکمرانوں کے ایسے منصوبے جو ماحول اور ثقافتی ورثوں پر اثر ڈالتے ہوں، انہیں شروع کرنے سے پہلے عوام کو اعتماد میں لینا چاہئیے، اس کے بعد حکمران مستقبل میں شہریوں کے معاشرتی اور ثقافتی حقوق کو نظر انداز نہیں کریں گے۔

اعجاز انور نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ لاہور ایک بڑا شہر ہے جہاں ماس ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے لیکن منصوبہ ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر زیرزمین ہونے چاہئیے، انہوں نے لندن اور ہندوستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ثقافتی ورثوں کو نقصان پہنچائے بغیر منصوبے بنائے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا تعلق 2018 کے عام انتخابات سے ہے، جس کے لیے پنجاب حکومت نے لاہور کے ماحول کو تباہ کر دیا ہے کیونکہ اس منصوبے کے لیے باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی تھی۔

سول سوسائٹی کی کارکن مریم حسین نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ قدیم ورثے کئی پہلوؤں سے انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہر کے ثقافتی ورثوں کی حفاظت جنگ کا پہلا حصہ ہے، اس کا دوسرا رخ وہ 10 ہزار غریب لوگ ہیں جو اس منصوبے کی وجہ سے اپنے کاروبار، نوکری اور گھروں سے محروم ہوگئے ہیں۔

مریم حسین کا مزید کہنا تھا کہ لاہور کی تاریخ میں یہ زمیںوں پر ہول سیل میں قبضے کی کہانی ہے، جس میں اسکول، ڈسپینسریز سب کچھ تباہ کیا جا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو مجبور لوگ اپنے حقوق کے لیے عدالت گئے انہیں حکام کی جانب سے خوفزدہ کیا گیا، منصوبے کی تکمیل کے لیے ان کی زمینوں پر قبضے کیے گئے جبکہ شہر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی اور شہریوں کو بے روزگار کردیا گیا۔

میٹروٹرین منصوبے کی نگرانی کرنے والے حکام کا کہنا تھا کہ حکومت نے عدالتی حکم کے بعد 11 عجائبات کی اطراف منصوبے پر کام روک دیا ہے جب تک عدالت اپنے فیصلے کو واپس لے یا عالمی تنظیموں سے آزادانہ تحقیق کرائی جائیں۔

اگلے احکامات تک منصوبے پر کام روک دیا گیا ہے۔

لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف اسرار سعید نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1975 کےعہد قدیم قانون کے تحت ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ 200 فٹ کی جگہ پر کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، جس میں عمارت کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔

اسرار سعید کا مزید کہنا تھا کہ اب عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ منصوبے پرعالمی تنظیموں کے آزاد ممبران سے تحقیق کرائی جائے، مگر سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح ماہر کی ' آزادی ' کا تعین کریں گے؟ ، عدالت کی جانب سے ایچ آئی اے کی رپورٹ کو بھی مسترد کردیا گیا ہے جو کہ یونیسکو کے آزاد نمائندے سے کرائی گئی تھی۔

انہوں نے غیر سرکاری اداروں اور میڈیا کی جانب سے منصوبے پر کی جانے والی تنقید پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔

اسرار سعید نے کہا کہ ان حلقوں کی جانب سے منصوبے کے خلاف غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، استنبول میں ہونے والی ڈبلیو ایچ سی کی میٹنگ کے فیصلے میں ذاتی مفادات شامل ہیں، جو عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوئے ہیں۔


یہ خبر 20 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں