اسلام آباد: پاکستان رینجرز کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو گمراہ کرنے کے خلاف ایوان بالا میں تحریک استحقاق جمع کرادی گئی۔

رینجرز پر الزام ہے کہ اس نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ایک بین الاقوامی تنظیم نے کراچی آپریشن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو تحریک استحقاق کا نوٹس جمع کرادیا گیا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے رینجرز کی بتائی ہوئی بین الاقوامی تنظیم کے حوالے سے تحقیقات کیں اور پاکستان، انڈیا اور نیپال میں لوگوں سے باتیں کیں جنہوں نے کہا کہ ’ہیومن رائٹس کمیشن ساؤتھ ایشیاء‘ کا کوئی وجود نہیں۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ تمام لوگوں نے اس جعلی تنظیم سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی حقوق پر سندھ رینجرز کی رپورٹ 'جعلی': فرحت اللہ بابر

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ رینجرز کی جانب سے جس انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی اس کا کوئی وجود نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے ہیومن رائٹس کمیشن ساؤتھ ایشیا جعلی تنظیم ہے جسے پروپیگنڈا کرنے کیلئے قائم کیا گیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کی جانب سے اپنے دفاع میں ایسی تنظیم کی رپورٹ پیش کرکے خود اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا‘۔

جولائی میں ہیومن رائٹس کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں مبینہ طور پر کراچی آپریشن کے نگرانی کرنے والے کرنل قیصر خٹک نے کہا تھا کہ ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم نے آپریشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔

فرحت اللہ بابر نے رینجرز کے اس دعوے کو چیلنج کیا اور کرنل خٹک سے کہا کہ وہ مذکورہ تنظیم کی مرتب کردہ رپورٹ کی کاپی آئندہ اجلاس میں کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔

تاہم جب گزشتہ روز کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تو اس میں پاکستان رینجرز کے نمائندگان موجود نہیں تھے۔

کمیٹی کے نام اپنے خط میں رینجرز نے موقف اختیار کیا کہ ’کراچی میں امن عامہ کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے رینجرز کے حکام نومبر تک دستیاب نہیں ہوں گے‘ تاہم کمیٹی نے رینجرز کی اس وضاحت کو مسترد کردیا۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والا یہ ادارہ جواب دے کہ اس نے کیوں ایک جعلی تنظیم کی رپورٹ پیش کرکے پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، اس اقدام کی وجہ سے پاکستان رینجرز کی ساکھ متاثر ہوئی ہے‘۔

مزید پڑھیں:کراچی آپریشن: جرائم کی شرح میں 70 فیصد کمی

رینجرز حکام کی مسلسل غیر حاضری پر کمیٹی کے تمام ارکان نے تشویش کا اظہا کیا اور آئندہ اجلاس میں رینجرز کے نمائندوں کی شرکت کا مطالبہ کیا۔

محسن لغاری نے کہا کہ رینجرز کے نمائندوں کا کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں اس عمل سے محض ادارے کا نام خراب ہورہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر نثار محمد نے کراچی آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی شہر تبدیل ہوچکا ہے اور ایسا صرف رینجرز کی وجہ سے ہوا‘۔

بلوچستان کا معاملہ

کمیٹی نے گزشتہ دو برسوں کے دوران بلوچستان میں لوگوں کے قتل کرکے لاشیں پھینکنے کے حوالے سے بھی کئی فیصلے کیے۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ بلوچستان میں ملنے والی ایسی تمام لاشوں کا ڈی این اے کرایا جائے اور ریاستی ایجنسیوں کو لگام ڈالنے کیلئے مجوزہ قانون کو اپنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچ سماجی کارکن عبدالواحد کراچی سے 'لاپتہ'

کوئٹہ کے ڈی آئی جی کرائمز شکیل احمد درانی نے جب اجلاس میں بتایا کہ گزشتہ دو برس کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 52 لاشیں مل چکی ہیں تو اس وقت اجلاس کا ماحول کشیدہ ہوگیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ان کیسز کی تحقیقات نہیں کی جاتیں کیوں کہ اس حوالے سے کوئی بھی شخص مقدمہ درج کرانے پولیس کے پاس نہیں آتا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ’اے ایریاز‘ کی انچارج مقامی پولیس ہے لیکن ان کی حدود ’بی ایریاز‘ میں ختم ہوجاتی ہے جو فرنٹیئر کور کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’پولیس کی جانب سے اس بات کا اعتراف کہ کوئی شخص رپورٹ درج کرانے نہیں آتا اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگوں کو ریاستی مشینری اور عدالتی نظام پر بھروسہ نہیں‘۔

فرحت اللہ بابر نے خبردار کیا کہ بلوچستان کے عوام کی حالت زار پر حکومت کی بے حسی کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومتی ناکامی کا اعتراف

انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کے حوالے سے رپورٹ انتہائی پریشان کن ہے کیوں کہ اس میں ان ہی علاقوں (اے ایریاز) سے لاشیں ملنے کا ذکر ہے جو پولیس کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’خدا ہی بہتر جانتا ہوگا کہ بی ایریاز میں کتنے بد نصیب لوگوں کی لاشیں ملیں‘ جبکہ سینیٹر نے ہدایت کہ آئندہ اجلاس میں صوبے کے تمام علاقوں میں قتل اور لاشیں پھینکنے کے حوالے سے جامع رپورٹ پیش کی جائے۔

نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان کی ہدایت پر کمیٹی نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے ریاست کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کی کاپیاں حاصل کرے گی۔

کمیٹی نے لاپتہ افراد اور ملنے والی لاشوں کے درمیان تعلق کے حوالے سے بھی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔

یہ خبر یکم ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں