کیا لاڈلا بچہ پاکستان کی قسمت بدل دے گا؟

12 ستمبر 2016
عمر اکمل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے ٹیم میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے—فوئل/فوٹو: اے ایف پی
عمر اکمل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے ٹیم میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے—فوئل/فوٹو: اے ایف پی

اس میں شک کا کوئی شائبہ نہیں تھا کہ عمراکمل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے لیے قومی ٹی ٹوئنٹی میں دوبارہ شامل کیا جارہا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے معمر چیئرمین شہریارخان نے جب ایک مرتبہ انھیں معاف کردیا تھاتو قومی سلیکٹرز کو پاکستان کرکٹ کے لاڈلے بیٹے کو دوبارہ بلانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔

معصوم اکمل کی گزشتہ ماہ پی سی بی کے سربراہ کے ساتھ ملاقات ایسی تھی جیسے نافرمان لڑکا اپنے دادا سے استدعا کررہاہو کہ آئندہ میدان کے اندر اور باہر کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔

بورڈ کے مرکز میں ہونے والی اس دوبدو ملاقات کی جزیات باقاعدہ طور پرعام نہیں ہوئیں لیکن کوئی اس کو یوں لے سکتا ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین کی جانب سے نرم رویے نے ایک غلط مثال قائم کردی۔

رواں سال اپریل میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد رخصت ہوتے ہیڈ کوچ وقاریونس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ عمر اکمل اور احمد شہزاد کی ناقص ڈسپلن کا ریکارڈ ہے اور انھیں پاکستان ٹیم کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، یہ رپورٹ پراسرار طورپر عام ہوئی تھی۔

وقار نے رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ 'میں ان کے ساتھ کئی دفعہ بیٹھا اور انھیں بتایا کہ میں کیا چاہتا ہوں، 2015 کے ورلڈ کپ سے قبل بھی میں ان کے ساتھ بیٹھا اور انھیں کہا کہ میں اور پوری ٹیم ان سے کیا توقعات رکھتی تھی اور قوم ان سے کیا امید رکھتی تھی، میں نے ان کے ساتھ سخت محنت کی لیکن بدقسمتی سے ان میں جذبہ نہیں تھا۔

'ان میں کرکٹ کی لگن نہیں ہے، انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ صرف پیسا کمانے کے لیے نہیں ہے، کرکٹ ایک کاروبار نہیں اور یہ جذبے سے ہے، بعض اوقات مجھے ایسا تاثر ملا کہ یہ نوجوان زیادہ عمل نہیں کررہے، وہ کئی اور چیزوں کے حوالے سے سوچ رہے ہیں مگر کرکٹ کے بارے میں نہیں'۔

سابق کپتان اوراپنے دور کے خطرناک فاسٹ باؤلرز میں سے ایک نے مزید کہا کہ 'اس دورکو دیکھیے جب میں نے انضمام الحق اور وسیم اکرم جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی، یہ کھلاڑی کرکٹ کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچتے تھے، یہ ایک ایسی چیز تھی جس کو میں نے محسوس کیا کہ یہ نوجوان کھلاڑی نابلد تھے'۔

'عمر اور احمد کو اپنے تسمے باندھنے ہوں گے اگر وہ ٹیم میں واپس آنا چاہتے ہیں، صلاحیت آپ کو ایک خاص سطح تک لے جاتی ہے اس کے بعد سخت محنت ہی آپ کو آگے لے کر جاتی ہے، ہم نے ان کی صلاحیتیں دیکھی ہیں اور اگر وہ سخت محنت کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ہیں تو پھرہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ پاکستان ٹیم میں نظر نہ آئیں'۔

وقار نے اکمل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ 'عمراکمل کو ہارون رشید کے ذریعے کہا گیا کہ سری لنکا میں ایک روزہ سیریز کے لیے اگلے روز فٹنس ٹیسٹ دینے آجائیں باوجود اس کے انھوں نے کسی کو خبرکئے بغیر منافع بخش لیگ میں شرکت کے لیے کیریبیئن روانہ ہونے کو ترجیح دی'۔

'چند ماہ بعد جب انھیں حیدرآباد میں ایک حادثے یا اپنی ڈومیسٹک ٹیم کے کوچ سے بدتمیز پر پکڑا گیا مگر ہر مرتبہ انھوں نے ٹیم میں اپنی جگہ دوبارہ حاصل کرنے کا انتظام کرلیا، کیا یہ طریقہ کار ہے جو ہم نئے کھلاڑیوں کے لیے قائم کررہے ہیں؟

'اینڈریو سائمنڈز آسٹریلیا کے لیے بہت باصلاحیت کھلاڑی تھے یا کیون پیٹرسن انگلینڈ کے لیے تھے لیکن ان کے ناقابل قبول رویے کی وجہ سے انھیں باہر کیا گیا اورصلاحیت کے باوجود انھیں دوبارہ ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا'۔

'کیا ہم یہ فیصلہ لینے کے لیے پرعزم ہیں یا ہم میڈیا یا مختلف لوگوں کی جانب سے مخصوص کھلاڑیوں کے لیے دباؤ سے خوف زدہ ہیں؟ میں یقین دلا سکتا ہوں کہ ایک عمراکمل کی قربانی سے ہمیں دوسرے کھلاڑیوں کو بہتربنانے میں آسانی ہوگی جو سچے اور فخر کے ساتھ اپنے سینے پر ستارہ سجا کر پاکستان کی نمائندگی کرسکتے ہیں'۔

ایسے میں پی سی بی صرف چند ماہ میں ہی ایک کھلاڑی کی کوتاہیوں کو معاف کرنے کے لیے رحم دل کیسے ہوسکتا ہے، جوافسوس کے ساتھ گزشتہ دہائی میں شعیب اخترکے ساتھ ادا کئے گئے کردار کو نبھانے کو فرض کر چکے ہیں۔

ملنسار مصباح الحق اور یونس خان پاکستان کرکٹ کو حیران کن خدمات دینے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ سے کنارہ کشی سے زیادہ دور نہیں ہیں، ملک کی مستقبل کی نسل کے کرکٹرز کو تقلید کے لیے رول ماڈلز کی اشد ضرورت ہے۔

اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عمر اکمل آج کے بعد اپنے بہترین رویہ کا مظاہرہ کریں گے اور ناقص ڈسپلن کا شکار نہیں ہوں گے؟ کیوں پی سی بی نے عین وقت میں اس حوالے سے نرم رویہ اپنایا؟

ہم سب عمر اکمل کی بیٹنگ کی خصوصیات سے آگاہ ہیں، ان کا تعلق ایک کرکٹ کے خاندان سے ہے جہاں سے ان کے بڑے بھائی کامران اکمل اور عدنا اکمل بھی آئے ہیں اور دونوں نے باعزت انداز میں ملک کی نمائندگی کی لیکن نوجوان اکمل نے نہ صرف پاکستان بلکہ اپنے خاندان کا نام بھی داؤ پر لگایا ہے۔

پی سی بی نے عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر کے داماد کو یاد رکھتے ہوئے وقاریونس کی جانب سے پاکستان کرکٹ کوتباہی سے بچانے کے لیے تندہی سے بنائی گئی اہم رپورٹ کو کم اہمیت دی ہے۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پی سی بی ایک روزہ ٹیم کی حالیہ برسوں میں گرتی ہوئی کارکردگی سے گھبراہٹ کا شکار ہے۔

عمراکمل نے اس وقت کے بہترین بلے باز ویرات کوہلی کے بعد دونوں طرز میں ڈیبیو کیا لیکن دیکھیے اب وہ کہاں کھڑے ہیں۔

کوہلی نے ٹیسٹ کرکٹ میں نہ صرف ایم ایس دھونی کی جانشینی سنبھالی لیکن دہلی سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ بلے باز اعداد وشمار میں ناقابل یقین ہیں۔

میڈیا کی جانب سے پاکستان کے لیے کوہلی کا موازنہ عمر اکمل سے کیا جاتا ہے جو ریکارڈ میں بہت دور ہیں۔

عمراکمل ون ڈے کرکٹ میں کوہلی سے 60 میچ پیچھے ہیں اور صرف دو سنچریاں بنائی ہیں جبکہ ہندوستانی اسٹار کی شاندار 25 سنچریاں ہیں۔

اوسط بھی چونکا دینے والی ہے، اکمل 34.67 اوسط کے ساتھ کوہلی کی 51.51 سے کئی گنا پیچھے ہیں اور ورلڈکپ 2015 کے کوارٹرفائنل میں شکست کے بعد اس طرز کا کوئی میچ نہیں کھیلا۔

عمراکمل کے ٹی ٹوئنٹی کے اعداد وشمار بھی کوہلی کے مقابلے میں مایوس کن ہیں، کوہلی سے موازنہ کیا جائے تو انھوں نے 8 مرتبہ 50 سے زیادہ اسکور کیا جبکہ کوہلی نے 16 مرتبہ یہی اعزاز ہندوستان کے لیے حاصل کیا اور 45 میچوں میں 57.13 کی شاندار اوسط ہے دوسری جانب عمراکمل نے 79 میچوں میں 26.80 کی اوسط سے رنز بنائے ہیں۔

ان کی اسٹرائیک ریٹ بھی مختلف ہے، کوہلی نے 135.48 جبکہ اکمل 122.92 کے ساتھ پھر پیچھے ہیں۔

مزید برآں، محسن حسن نے 2011 میں چیف سلیکٹر کی حیثیت سے اکمل کو ٹیسٹ کرکٹ میں 16 میچزکھیلنے کے بعد مخصوص انداز میں آؤٹ ہونے پر معقول سزادی تھی جہاں عمراکمل نے صرف ایک سنچری کی مدد سے 1003 رنز بنائے تھے اور 129 ان کا سب سے بڑا اسکور تھا جو انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف 2009 میں ڈنیڈن میں اپنے پہلے ہی میچ میں بنائے تھے۔

وقاریونس نے اپنی رپورٹ میں بجاطورپر ایک پہلو کو نمایاں کیا تھا کہ عمراکمل کے ایک لاپرواہ بلے باز ہونے کا سلسلہ ہے اور کرکٹ کی آرکائیو میں اس کے بھاری ثبوت ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا عمراکمل بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی واپسی میں کیا پیش کرتے ہیں۔

کیا وہ پاکستان کی ورلڈ کپ 2019 میں براہ راست جگہ بنانے کے لیے کوالیفائنگ کی شرمندگی سے بچنے کی جو کوشش ہے اس کے لیے مردبحران بنیں گے؟

یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (3) بند ہیں

masroor Sep 12, 2016 10:58pm
No Hope with Akmal brothers, they have done their best long time ago. We should move on and try other players after all we are nation of over 200 million people finding player with strong batting fire power in 20/20 and 50/50 games is not hard for most popular game across the country.
ahmed Sep 13, 2016 10:57am
The inclusion of umar akmal shows how weak this board is.players like umer akmal and ahmed shahzad with their past attitude and performances should be kept outside the international tournaments.
شان علی Sep 13, 2016 10:39pm
عمر اکمل ایک انتہائی خودغرض، بزدل اور اوسط درجے کا کھلاڑی ہے جو کہ اپنی غیر مستقل مزاجی ، ہٹ دھرمی اور بےپروائی کی وجہ سے مجھے سخت نا پسند ہے۔ ایک ٹیلنٹڈ مگر لاپروا بلے باز کی نسبت ہمیں ایک اوسط درجے کا ہی سہی مگر ذمہ دار بیٹسمین چاہیے۔ میڈیا کی ہوا کا ہی اثر ہے کہ عمر اکمل، اور احمد شہزاد جیسے اوسط کھلاڑی خود کو ماسٹر کلاس ویرات کوہلی کا ہم پلہ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔