'دہشت گردوں نے 4 بیٹے چھین لیے، دنیا ہی اُجڑ گئی'

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2016
مہمند ایجنسی کے بدقسمت رنڑا خان کے 4 بیٹے دہشت گردی کا نشانہ بنے—۔فوٹو/ بشکریہ عبداللہ ملک
مہمند ایجنسی کے بدقسمت رنڑا خان کے 4 بیٹے دہشت گردی کا نشانہ بنے—۔فوٹو/ بشکریہ عبداللہ ملک

'میں اپنے گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع دوسرے گاؤں میں کسی کام سے گیا ہوا تھا کہ مجھے اپنے گاؤں کی مسجد میں دھماکے کی اطلاع ملی، واپسی پر میں نے دیکھا کہ میرے گھر کے سامنے بہت سی قبریں بن رہی تھیں، جب گھر گیا تو وہاں 3 بیٹوں کی لاشیں موجود تھیں اور پھر کچھ دیر بعد ایک اور بیٹے کی لاش بھی گھر لائی گئی۔'

قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی کی تحصیل پائے خان انبار میں 16 ستمبر کو نماز جمعہ کے دوران ہونے والے خودکش حملے نے جہاں کئی گھر اجاڑے، وہیں ایک باپ ایسا بھی ہے، جس کے 4 بیٹے اُس دن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

رنڑا خان—۔فوٹو/ بشکریہ عبداللہ ملک
رنڑا خان—۔فوٹو/ بشکریہ عبداللہ ملک

مہمند ایجنسی کے بدقسمت رنڑا خان نے اس دن اپنے 4 بیٹوں کے جنازے کو کاندھا دیا تھا۔

اس خودکش حملے میں ایک بزرگ سمیت 36 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ کئی زخمی تاحال ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

بیٹوں کی موت نے رنڑا خان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، گھر کے ایک کھونے میں گم صم بیٹھا یہ باپ اپنے بیٹوں کی موت پر تو غم زدہ ہے ہی، لیکن اسے یہ فکر بھی ستائے جاتی ہے کہ آگے کیا ہوگا؟

ان کی 9 اولادوں میں 6 بیٹے اور 3 بیٹیاں شامل ہیں، اس بدقسمت باپ نے اپنے 4 بیٹے تو گنوا دیئے لیکن وہ اس بات پر اللہ کے شکرگزار ہیں کہ ان کے 2 بیٹے زندہ سلامت ہیں، جنھیں دیکھ کر وہ سکون کی سانس لیتے ہیں۔

رنڑا خان کا کہنا تھا، 'ہماری مسجد پر حملہ صرف اس لیے ہوا کیونکہ ہم اپنے علاقے میں امن کے لیے کوششں کررہے ہیں۔'

مزید پڑھیں:مہمند ایجنسی میں کرفیو، ہلاکتیں 30 ہوگئیں

ان کا کہنا تھا، 'دہشت گردوں نے مجھ سے 4 بیٹے چھین لیے، ایسا لگتا ہے کہ میرے خاندان کی دنیا ہی اُجڑ گئی ہے اور گھر ایک ماتم کدہ بن گیا ہے۔'

انھوں نے بتایا، 'میرے بڑے 2 بیٹے 25 سالہ وہاب اور 22 سالہ نعیم راولپنڈی میں محنت مزدوری کرتے تھے، جن کی کمائی سے گھر کا چولہا جلتا تھا، وہ عید کی چھٹیاں منانے گھر آئے تھے اور گاؤں میں خودکش حملے کا نشانہ بن گئے۔'

وہاب شادہ شدہ اور اس کی ایک بیٹی تھی، جبکہ نعیم کی 18 ستمبر کو شادی طے تھی۔

رنڑا نے خودکش حملے میں جان کی بازی ہارنے والے اپنے دوسرے 2 بیٹوں کے حوالے سے بتایا، 'میرے چھوٹے بیٹے 16 سالہ مشتاق اور 12 سالہ شہاب گھر کے صحن میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے، جنھیں دیکھ کر مجھے سکون ملتا تھا، لیکن اب گھر کا سونا آنگن دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ایسا لگتا ہے میرے سارے خاندان کو ختم کردیا گیا ہو، نوجوان بچوں کی موت نے میری کمر توڑ دی ہے'۔

رنڑا کی اہلیہ بھی بچوں کی المناک موت پر صدمے کا شکار ہیں، انھوں نے بتایا، 'مشتاق کی والدہ رات کو گھر کے دروازے سے لپٹ کر روتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ کرکٹ کھیلنے گیا ہے، ابھی آتا ہی ہوگا، لیکن نہ تو مشتاق آتا ہے اور نہ ہی اس کی ماں کے آنسو رکتے ہیں'۔

نماز جمعہ کے دوران ہونے والے خود کش حملے کے بعد تحصیل انبار کی فضا غم سے سوگوار ہے اور یہاں کے مکینوں کے ٖغمزدہ چہرے بس یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر کب تک دہشت گرد یہاں خون کی ہولی کھیلتے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں