اسلام آباد: گزشتہ مالی سال کی آڈٹ رپورٹس کے مطابق وفاقی وزارتوں، سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں 2 ہزار ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں 1496 ارب جبکہ وفاقی وزارتوں میں 499 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

مالی سال 16-2015 کی آڈٹ رپورٹس کے مطابق پی آئی اے، پرنٹنگ کارپوریشن، پاکستان بیت المال، این آئی سی ایل، ٹی سی پی، اسٹیٹ لائف انشورنس، اسٹیٹ بینک، اوگرا اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن سمیت دیگر پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں 1496 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر 930 ارب روپے، غفلت اور دیگر کیسز میں 303 ارب روپے، فراڈ، غبن، چوری اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے باعث 5 ارب 63 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

اس کے علاوہ سال 16-2015 میں سی ڈی اے، پی ڈبیلو ڈی، این ایچ اے، رینجرز اور ایف سی سمیت دیگر اداروں میں 138 ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

اسی طرح وزارت تجارت، وزارت مواصلات، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، وزارت صنعت و پیداوار، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، فاٹا سیکریٹریٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سمیت فیڈرل گورنمنٹ سول کے اکاؤنٹس میں تقریباً 499 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں، جس کے تحت قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر 15 ارب روپے جبکہ انٹرنل کنٹرول سسٹم کی کمزوریوں سے 210 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

آڈٹ رپورٹس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا اسد امین نے سفارش کی ہے کہ سرکاری اداروں اور وزارتوں میں انٹرنل کنٹرول سسٹم کو مضبوط کیا جائے، تاکہ غبن اور فنڈز کے غلط استعمال کا راستہ روکا جاسکے۔

انہوں نے رپورٹس میں مزید سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام خود مختار ادارے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے اکاؤئنٹنگ کے طریقہ کار اور اصولوں کی منظوری لیں جبکہ پیپرا رولز 2004 کا خیال رکھا جائے۔

قابل آڈٹ تمام رکارڈ طلب کرنے پر پیش کیا جائے، بینک اکاؤنٹس باقاعدہ اتھارائزیشن کے ساتھ کھولے جائیں اور وزارت خزانہ کی ہدایت کے مطابق فنڈز کا استعمال کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں