کوئٹہ: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش حملے کے واقعے کو سیکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دے دیا۔

بلوچستان ہائی کورٹ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے واقعے کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول ہسپتال کی انتظامیہ کی کارکردگی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔

دوران سماعت آئی جی پولیس احسن محبوب نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ واقعے سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ دینا چاہتے ہیں جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) نے انکوائری میں تعاون نہیں کیا اس کے باوجود انہیں عہدے سے کیوں نہیں ہٹایا گیا۔

سماعت کے دوران بلوچستان کے چیف سیکریٹری سیف اللہ چٹھہ، آئی جی پولیس احسن محبوب اور سول ہسپتال کے ایم ایس عبدالرحمٰن میاں خیل نے سانحے کے حوالے سے اپنی الگ الگ انکوائری رپورٹس پیش کی۔

کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ دھماکے کے 82 زخمیوں میں سے 36 کے بیان ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے تفتیشی افسر کی معلومات پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی پولیس اور انسپیکٹر کو تفتیش کا پتہ ہی نہیں، ایسی صورتحال میں ہم ان پر کیسے اعتبار کریں؟

مزید پڑھیں: کوئٹہ دھماکا: ملزمان کی گرفتاری کیلئے 19 اگست کی ڈیڈلائن

جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکریٹری سے سوال کیا کہ سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں جب سوئی تک نہیں تو اس کا افتتاح کیوں کیا گیا۔

عدالت میں بیان دیتے ہوئے سینئر وکیل علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ عدلیہ سے درخواست ہے کہ اس کیس کا نتیجہ نکلنا چاہیے اور ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہئے، جبکہ حکومت کی جانب سے رپورٹ اور بیانات وقت کا ضیاع ہے۔

چیف جسٹس کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اپ کی یہ بات مناسب نہیں کہ ازخود نوٹس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، حکومت عمل نہ کرے تو عدلیہ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس حوالے سے انہوں نے کراچی امن و امان کیس اور این آر او کیسز کا بھی حوالہ دیا۔

سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت 6 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ: ’کئی افرادگرفتار، تفصیل نہیں بتائی جاسکتی‘

کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینئر وکیل حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ تینوں رپورٹس جھوٹ کا پلندہ ہیں، جن کے ذریعے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ 8 اگست کو بلوچستان بار کونسل کے صدر ایڈووکیٹ بلال انور کاسی کو قتل کردیا گیا تھا، جن کی میت کے ساتھ بڑی تعداد میں وکلا سول ہسپتال پہنچے تھے کہ اسی دوران شعبہ حادثات کے بیرونی گیٹ پر خودکش دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں وکلا سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔

جائے وقوع پر موجود صحافی بھی دھماکے کی زد میں آئے، نجی نیوز چینل آج ٹی وی کے کیمرہ مین بھی ہلاک جبکہ ڈان نیوز کے کیمرہ مین 25 سالہ محمود خان شدید زخمی ہوئے جو بعدازاں ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گئے تھے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، بعدازاں داعش نے بھی خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں