پاکستان کے سینما گھروں نے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث گزشتہ ہفتے ہندوستانی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی۔

سینما گھروں کے مالکان کی جانب سے ایسا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب انڈین فلم ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں پر ہندوستان میں کام کرنے پر پابندی لگادی تھی۔

ڈان امیجز نے کچھ سینماؤں کی انتظامیہ سے بات کرکے پتا لگایا کہ بولی وڈ فلموں پر پاکستانی سینما گھروں میں پابندی کا کیا اثر پڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: 'بھارتی فلموں پر پابندی مجبوری تھی'

لاہور کے سپر سینما کے جنرل منیجر خرم گلتاساب کا امیجز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس بولی وڈ فلموں پر پابندی لگانے کی دو وجوہات تھیں، پہلی پاکستانی فوج اور دوسری پاکستانی اداکاروں سے یکجہتی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ صحیح وقت ہے ہندوستان کو یہ بتانے کا کہ وہ ہمارے اداکاروں پر پابندی لگا کر یہ نہ سوچیں کہ جوابی کاروائی نہیں ہوگی، وہ یہ نہ بھولیں کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی تیسری سب سے بڑی مارکیٹ ہے‘۔

خرم کے مطابق ’قوم کا وقار اور فخر کسی بھی کاروبار سے بڑھ کر ہے، اگرچہ 50 سے 60 فیصد آمدنی صرف بولی وڈ فلموں سے ہوتی ہے پھر بھی بولی وڈ فلموں کو معطل کرنے کا فیصلہ مقامی اسٹیک ہولڈرز نے ایک ’فوری معاہدے‘ میں کیا۔

اب جبکہ بولی وڈ فلمز پر پابندی عائد ہوگئی ہے اور سینما گھروں میں پاکستان کی پرانی فلمیں پیش کی جارہی ہیں، خرم گلتاساب کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستانی سینما صرف پاکستانی فلموں سے نہیں چلائے جاسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی پروڈیوسرز نے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کردی

انہوں نے بتایا کہ ’سال میں 52 ہفتے ہوتے ہیں، کسی بھی فلم کو سینما میں 1 ہفتہ ملتا ہے، ایک بلاک بسٹر فلم کو 2 ہفتے ملتے ہیں، گزشتہ سال پاکستان کی صرف 15 فلمیں ریلیز ہوئیں، اس سال تقریباً 6 فلمیں سامنے آئیں، ان میں سے صرف 3 ہٹ رہیں، پاقی تمام فلاپ ہوگئیں، اگر ان فلموں کا سینما میں وقت بڑھا بھی دیا جائے پھر بھی ہمارے پاس 40 سے 42 ہفتے بچیں گے، سینما گھروں میں ان ہفتوں میں پھر کیا پیش کیا جائے گا؟‘

بہت سے افراد کی طرح انہیں بھی امید ہے کہ یہ پابندی جلد ہٹا دی جائے گی، ’پاکستان اور ہندوستان پڑوسی ہیں، اگر یہ دونوں دوست نہیں بن سکتے تو انہیں ایک ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا‘۔

کراچی کے ایٹریم سینما کے مالک ندیم منڈی والا نے انڈین فلم ایسوسی ایشن کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے فیصلے کو ’نادان اور غیر اخلاقی‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایسا انڈین فلم ایسوسی ایشن کے فیصلے کی وجہ سے کیا، ہمیں اس اقدام پر فوری ایکشن لینا پڑا جس کی وجہ سے ہم کوئی میٹنگ نہیں بلا سکے‘۔

بولی وڈ فلموں کی پابندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’اس سے انہیں بھی تکلیف ہوگی اور اس سے ہمیں بھی تکلیف ہوگی، اس سے ہمارے کاروبار کو بھی نقصان ہوگا اور فائدہ صرف چوری کی فلموں کو ہوگا‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سینما میں بولی وڈ فلموں پر پابندی

ان کے مطابق اب تک تو سینما کو اس پابندی سے کوئی نقصان نہیں ہوا، تاہم اگر یہ پابندی طویل عرصے جاری رہی تو پاکستان کے سینما گھروں کے کاروبار کو نقصان ہوگا۔

کراچی سنیپیکس کی انتظامیہ میں شامل محسن یاسین کا کہنا تھا کہ بولی وڈ فلموں پر پابندی لگنے کے باوجود اس وقت پاکستانی سینما کو کوئی نقصان نہیں اور شائقین اب بھی پاکستانی اور ہولی وڈ فلموں کو دیکھنے سینما گھروں تک آرہے ہیں۔

سنیپیکس پر بولی وڈ فلمز ’پنک‘، ’بار بار دیکھو‘ اور ’موئن جو دڑو‘ پیش کی جارہی تھیں تاہم بعد ازاں ان پر پابندی عائد کردی، یاسین کے مطابق بولی وڈ کی آنے والی فلمز ’شیوے‘ اور ’مرزیا‘ اب یہاں پیش نہیں کی جائیں گی۔

یاسین کے مطابق انہیں اب تک پاکستان میں کسی صارفین کی جانب سے بولی وڈ فلمیں نہ دکھانے پر کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور انہوں نے پاکستان کی پرانی فلمیں پیش کرنا شروع کردی ہیں۔

اس وقت سینما گھروں میں گزشتہ سال ریلیز ہونے والی پاکستانی فلمیں پیش کی جارہی ہیں جن میں ’بن روئے‘ اور ‘ہو من جہاں‘ شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں