ایک دن جب ارشد خان (چائے والا) ماڈلنگ کی دنیا کا اہم نام بن جائے گا تب وہ دنیا کو بتائے گا کہ کیسے اسے اسلام آباد کے اتوار بازار میں دیکھا گیا تھا جس کے بعد وہ مقبولیت پر پہنچ گیا۔

اس کی کہانی کچھ یوں ہوگی کہ وہ اس بازار میں چائے بناتا تھا، جب جویریہ علی نامی ایک فوٹوگرافر نے اس کی تصویر لی، یہ تصویر سوشل میڈیا پر اس حد تک مقبول ہوئی کہ ارشد کو دنیا بھر میں لوگ پہچاننا شروع ہوگئے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد کا 'گڈ لکنگ' چائے والا

ارشد خان کی طرح کیا پاکستان کے باقی کامیاب ماڈلز کے کیریئر کے آغاز کی کہانیاں اتنی ہی دلچسپ ہیں؟

ڈان نے 5 کامیاب ماڈلز سے بات کرکے اس کا پتا لگایا۔


شہزاد نور

فوٹوگرافر خاور ریاض نے شہزاد نور کو ان کے کیریئر کا پہلا موقع دیا۔

شہزاد نور کا کہنا تھا کہ ’میں کراچی میں پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل کے دوران خاور ریاض سے ملا تھا جہاں میں نے ایچ ایس وائے کے لیے اپنا پہلا ماڈلنگ شوٹ کیا، بس وہیں سے میرے کیریئر کا آغاز ہوا تھا، اس کے بعد میں نے دیوا میگزین کے لیے کچھ شوٹس بھی کیے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی فیملی نے کبھی ماڈلنگ کے پیشے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور ہمیشہ یہی سوچا کہ وہ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں، تاہم شہزاد کو کوئی افسوس نہیں کہ وہ ایک ماڈل بن چکے ہیں۔


جہانِ خالد

جہانِ خالد کے مطابق ماڈلنگ انڈسٹری میں داخل ہونا ان کا سوچا سمجھا ہوا فیصلہ تھا۔

ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ماڈل بننا ہمیشہ سے میری پسند تھی، میں ایک ایک سیڑھی چھڑتا گیا اور آگے بڑھتا گیا‘ُ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماڈل بننے سے قبل میں ایک انڈسٹری میں اسسٹنٹ منیجر تھا، میں نے خود فیصلہ کیا کہ مجھے ماڈل بننا ہے اور اپنے قریبی دوست اور فوٹوگرافر محمد عثمان ضیا سے کہا کہ وہ ان کا پورٹ فولیو شوٹ کریں جو کافی بہترین تھا اور یہیں سے ان کی کامیابی کا آغاز ہوا‘۔

کارپوریٹ کیریئر کو چھوڑ کر ماڈلنگ کی جانب آنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے والد نے مجھے ماڈلنگ کی فیلڈ کے لیے سپورٹ نہیں کیا، میرا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے اور میرے والد کو فکر تھی کہ میں ماڈلنگ میں اپنا کیریئر بنا سکوں گا یا نہیں، دوسری جانب میری بہن اور والدہ نے مجھے کافی سپورٹ کیا اور ہمیشہ میری محنت اور کامیابی کو سراہا‘۔


عمر شہزاد

عمر شہزاد نے انکشاف کیا کہ ’2011 اگست میں ایک ماڈل ہنٹ کے دوران ونیزہ احمد‎ نے فیشن ویک کے لیے میرا انتخاب کیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان دوران میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کمپنی کے لیے کام کررہا تھا، جب ایک ایجنٹ اجمل مراد نے مجھے دیکھا اور ایک ٹی وی اشتہار میں کام کرنے کی آفر دی اور اس طرح میرے کیریئر کا آغاز ہوا‘۔

عمر کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے اس فیلڈ میں آکر کسی قسم کا کوئی افسوس نہیں، یہاں مجھے عزت، مقبولیت، پیسہ اور بہت اچھے دوست ملے ہیں جو میری فیملی کی طرح ہیں‘۔


تابش عزہ

ماڈل تابش عزہ اس فیلڈ میں آنے سے قبل ایک کامیاب انٹرپرینور تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے فیملی بزنس کو سنبھال رہا تھا اور ساتھ میں اپنا بی بی اے مکمل کررہا تھا، ایک ماڈل ہنٹ کے دوران سٹرس ٹیلنٹ نامی ایک ایجنسی نے میرا انتخاب کیا اور مجھے لورنسپور نامی پرینڈ کی بڑی مہم کا حصہ بنا دیا‘۔

تابش عزہ کے مطابق ’میری فیملی اس کام کے بالکل خلاف تھی کیوں کہ ان کے مطابق ماڈلنگ مستحکم کیریئر نہیں ہے، تاہم ان کے مطابق یہ ایک منافع بخش انتخاب تھا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اس فیلڈ کا حصہ بن کر کسی قسم کا افسوس نہیں، مجھے اس پروفیشن میں بے حد عزت اور مقبولیت ملی ہے‘۔


آصف رحمٰن

آصف رحمٰن نے ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے میں چائے والے جتنا خوش قسمت نہیں تھا، میں نے کئی ماڈلنگ ایجنسیوں سے رابطہ کیا اور اپنے پہلے فیشن شو کے لیے ججز کے ایک پینل نے میرا انتخاب کیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں آج بھی ایک معروف انسٹی ٹیوٹ میں سرکاری ملازم کے طور پر کام کررہا ہوں، میرے دوستوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں اس فیلڈ میں شامل ہوا اور آگے جو کچھ بھی ہوا، آپ کے سامنے ہے‘۔

تاہم ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ماڈلنگ ایک منافع بخش کام ہے لیکن خواتین ماڈلز کے مقابلے میں مردوں کو کم پیسے دیے جاتے ہیں‘۔

عاصف کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے کوئی افسوس نہیں، جب ایک بار میں کسی کام کو کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں تو باس میں اپنا 100 فیصد لگا دیتا ہوں اور ہمیشہ اپنے فیصلوں کے ساتھ رہتا ہوں، ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی کبھی ہمیں بُرے تجربے سے گزرنا پڑ جائے لیکن میرے خیال سے زندگی ہمیشہ آپ کو کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں