پشاور: شراکت دار تنظیموں کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق انتظامیہ کے اس اقدام سے والدین کی مزاحمت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، پیر 7 نومبر کو انتظامیہ نے ضلع پشاور کے 88 ایسے والدین کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جنہوں نے اپنے 5 سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا تھا۔

واضح رہے کہ والدین کے خلاف ایف آئی آردرج کرنے سے انسدادِ پولیو مہم میں مزید رکاوٹیں پیدا ہونے کے خدشے کے پیش نظر شراکت دار تنظیموں (partner organisations) کی جانب سے انتظامیہ کو اس اقدام سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ماضی میں انسدادِ پولیو مہم کی اضافی تشہیر اور مہم کے افتتاحی دِنوں میں اقوام متحدہ کی گاڑیوں کے دکھائی دینے سے مہم کو نقصان پہنچا تاہم نسبتاً خاموشی سے چلائی گئی پولیو مہم کے دوران قطرے پینے کی شرح میں اضافہ ہوا۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ علاقے میں ویکسینیشن سے انکار کرنے والے افراد کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر رضامند کریں، جبکہ پارٹنر تنظیموں کی مخالفت کے باوجود بقیہ آپشنز بے سود ہونے پر انتظامیہ والدین کو گرفتار کررہی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: انسدادِ پولیو، پاکستان میں ایک خطرناک مہم

ضلع جنوبی کے اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہم والدین کو رضامند کرنے کے لیے جرگہ بھیجتے ہیں جبکہ والدین میں پولیو کے قطروں سے متعلق تشویش دورکرنے کے لیے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جارہی ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری کی جانب سے تمام اضلاع کو انسدادِ پولیو مہم چلانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، ویکسینیشن کے حوالے سے کوئی مخصوص قانون موجود نہیں اور والدین کے خلاف ایکشن مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت لیا جارہا ہے۔

حکام کے مطابق والدین کے وارنٹ گرفتاری کا اجراء آخری حربے کے طور پر کیا جارہا ہے اور اس اقدام سے انکار کرنے والے کیسز کو 15 ہزار سے 1 ہزار کرنے میں کامیاب حاصل ہوئی ہے۔

حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے رضامند ہوجانے پر گرفتار افراد کو آزاد کردیا جاتا ہے جبکہ مساجد کے پیش امام سمیت قابل ذکر افراد اور یونین کونسل کے ارکان کی مدد سے بھی پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کو راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: انسداد پولیو مہم: حکومتی مشکلات میں اضافہ

ذرائع کے مطابق صوبے بھر میں پولیو ویکسینیشن سے انکار کے واقعات میں کمی سے انسدادِ پولیو مہم بہتر ہوسکے گی، صوبے بھر میں 32 ہزار پولیو ورکرز ہر ماہ 56 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں جبکہ 1 لاکھ کے قریب بچے رسائی نہ ہونے کے سبب یا والدین کے انکار کی وجہ سے قطرے پینے سے رہ جاتے ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارٹنر تنظیموں کی جانب سے ایم پی او کے استعمال اور والدین کی گرفتاریوں کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ اس سے عوام میں انسدادِ پولیو مہم سے متعلق غلط تاثر جانے کا خدشہ ہے، اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین تحفظات کا شکار ہیں اس لیے انہیں قائل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

ذرائع کا خیال ہے کہ پولیو کے قطرے پلوانے کو سماجی ذمہ داری سمجھا جانا ضروری ہے۔

اس حوالے سے ضلع پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے ڈان کو بتایا کہ ہم لوگوں کو اس لیے گرفتار کررہے ہیں کیونکہ وہ بچوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، انسدادِ پولیو مہم اقوام متحدہ کا پروگرام ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عالمی عہد کو پورا کرنے کے لیے پولیو کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔

ڈپٹی کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر رجسٹر ہونے سے پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری کئی گھرانے اپنے بچوں کی ویکسینیشن کرانے پر رضا مند ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ پارٹنر تنظیموں کے خدشے کے برخلاف ضلعی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ انسدادِ پولیو مہم میں کوئی بھی رکاوٹ پیدا نہ ہونے پائے۔

یہ خبر 8 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں