''غدار غدار'' کا سیاسی کھیل

24 نومبر 2016
ہم اپنے مفاد کے لیے کسی کو غدار ٹھہرانے میں ایک منٹ تک وقت نہیں لگاتے۔ ہمارے ملک میں غدار کا دھبہ لگانا نہایت آسان ہے — فوٹو: پی پی آئی
ہم اپنے مفاد کے لیے کسی کو غدار ٹھہرانے میں ایک منٹ تک وقت نہیں لگاتے۔ ہمارے ملک میں غدار کا دھبہ لگانا نہایت آسان ہے — فوٹو: پی پی آئی

پاکستان کی سیاست تو ہمیشہ سے ہی نشیب و فراز کا شکار رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے والی ایک فیکٹری بھی ہر دور میں فعال رہی۔ اس فیکٹری نے کسی کو خوش کرنے کے لیے کسی کو غدار ٹھہرایا تو کسی کو سیکیورٹی رسک۔ چند جوتے پالش کرنے والے سیاست دانوں نے جنہیں غدار کے القاب دیئے بعد میں پھر انہی کو پارسا بھی کہا۔

ہم اپنے مفاد کے لیے کسی کو غدار ٹھہرانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ ہمارے ملک میں غدار کا دھبہ لگانا نہایت آسان ہے۔ نہ کسی کو غدار کی معنی مفہوم کا علم ہے اور نہ قانونی پیچیدگیاں، بس جو گھر سے روٹھا اس نے دوسرے کے در پر غدار کا پوسٹر چسپاں کر دیا۔

خیر چھوڑیئے اس بات کو آج کل پاکستان میں ایک جدید اصطلاح کا بھی چلن ہے، سیکیورٹی رسک، سو اب جس کا دل چاہتا ہے دوسرے کو سیکیورٹی رسک کہہ دیتا ہے۔

خان صاحب اور پیپلز پارٹی کے لوگ پاکستان کے وزیر اعظم کو سیکیورٹی رسک قرار دے رہے ہیں۔ کتنا آسان ہے ایک منتخب وزیر اعظم کو سیکیورٹی رسک کہنا۔ سیکیورٹی رسک کا مطلب تو ہوتا ہے کہ جو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہو۔ کیا نواز شریف ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں؟

اگر وہ خطرہ ہیں تو تیسری بار وزیر اعظم کیوں منتخب ہوئے؟

اگر ایک ایسا شخص جو سیکیورٹی خطرہ ہے پھر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہوا، وہ ایک بار نہیں بلکہ اب تک تیسری بار، لیکن قوم ملک سلطنت سب کچھ پائندہ تابندہ آباد ہیں۔ پھر تو ثابت ہوا کہ میاں صاحب وزارت عظمیٰ کی اہلیت کا تو پتہ نہیں مگر وہ نا اہل 'خطرہ' ضرور ہیں جو تیسری بار حکمران بن کر بھی سالمیت کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔

پڑھیے: 'شہادت' کا ریاستی سرٹیفکیٹ

اب تو پرائے یارانوں پر سیاسی رہنماؤں کی نظریں ہیں، اب پتہ بھی نہیں کہ یارانہ حقیقی بھی یا فرضی، ایسی ہی افواہ سننے میں آئی کہ نواز شریف مودی سے رفاقت رکھتے ہیں۔ بلاول صاحب نے تو کہہ ڈالا کہ جو مودی کا یار ہے 'غدار' ہے۔ سو ٹوئٹر والی جنریشن سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو زرداری نے بھی زرد اخباروں پر لکھے کڑوے سیاسی بیانات کی یاد تازہ کردی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا جو اپنے لفظوں کو واپس لینے سے ہی انکاری ہو گئے اور کہہ دیا کہ، میں نے نواز شریف کو کبھی غدار نہیں کہا۔

چلیے اب غدار غدار کھیل کا ماضی قریب کی ایک مثال اٹھاتے ہیں، دانیال عزیز اور چند دوسرے احباب جو مشرف کے جوتے کی چمک میں مسحور تھے، اس وقت نواز شریف کو غدار اور سیکیورٹی رسک کہتے تھے۔ اب اپنے مفاد میں یوں یو ٹرن لیتے ہیں کہ میاں صاحب سے زیادہ محب وطن تو اس ارضِ وطن پر ہے ہی نہیں۔ موصوف آج کل ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ خان صاحب ملک کے لیے سیکیورٹی رسک ہیں۔

وہاں وزیر اعظم کی جماعت بھی کہاں اس کھیل سے پرے ہے۔ دھرنوں کی موسم میں ان کی جانب سے مؤقف آیا کہ خان صاحب نے دھرنا دے کر سی پیک کے خلاف سازش کی ہے۔ خان صاحب اگر سیکیورٹی رسک ہیں تو وزیر اعظم نواز شریف کیوں خان صاحب کے گھر بنی گالا جاتے ہیں۔ اگر خان صاحب سیکیورٹی رسک ہیں تو کیوں دانیال عزیز کے سیاسی آقا یعنی میاں نواز شریف خان صاحب کو اے پی سی میں بلواتے ہیں وہ اے پی سی جس میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔

میں اس سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں کہ سلامتی کے اس خصوصی اجلاس میں کوئی خطرے کو کس طرح دعوت دے گا۔ پھر اسی اجلاس میں کپتان اور پیپلز پارٹی نے کیوں نواز شریف کی صدارت کو قبول کیا، تو کیا سارے سیکیورٹی خطرات سلامتی پر غور و فکر کر رہے تھے۔

سیاست میں بیان بازی اچھی بات ہے مگر اس طرح کے فتوی لگانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ تاہم یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ذرا اس کا تاریخی پس منظر بھی ملاحظہ ہو۔

خدائی خدمت گار کہلوانے والے خان عبدالغفار باچا خان کو غدار کہا گیا، اسی باچا خان کو اپنا قائد تسلیم کرنے والی اے این پی ملکی دھارے میں سیاسی سرگرمیاں کر رہی ہے۔ اسی طرح حسین شہید سہروردی کو بھی غدار کہا گیا تھا۔

پڑھیے: سیاست اور اخلاقیات

یہ قرعہ فال اس جالب کے نام بھی نکلا جس کے گن آج شہباز شریف اور دوسرے سیاست دان بھی گاتے ہیں۔ عبد الصمد خان اچکزئی، فیض احمد فیض، جیسے لوگوں پر بھی غدار کا ٹھپہ لگا دیا۔ اسی فیض کی آج ہم مالا جھپتے ہیں۔ عطاءاللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری بھی غدار کہلوائے۔

یہ سلسلہ یہاں تک ہی نہ رکا بلکہ ضیاء کے دور میں غلام مصطفیٰ کھر اور جام صادق علی کو ’را کا ایجنٹ‘ بتایا گیا پھر وہ مصطفی کھر اور جام صادق حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لے کر وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ بھٹو نے نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) پر پابندی لگائی۔ اس کے رہنماؤں پر سازش کا الزام لگا، وہ غدار قرار پائے، ضیاء دور میں ایم آر ڈی کے کئی رہنماؤں پر سنگین ملک دشمنی کے الزامات لگتے رہے۔

بھٹو دور میں پیپلزپارٹی پر ملک توڑنے کا الزام لگایا گیا، اس دور میں غلام اسحاق خان صدر تھے۔ اس دورمیں بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا۔ بینظیر بھٹو کے سب سے بڑے مخالف اور آج کے وزیر اعظم نواز شریف بھی بینظیر کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے رہے۔ آج خود میاں صاحب پر سیکیورٹی رسک اور مودی کے یار کا لیبل لگا دیا گیا۔ کیا یہ مکافات عمل ہے؟

مکافات عمل نہیں یہ ایک سیاسی کھیل ہے جو باری باری کھیلا جاتا ہے، عوامی مقبولیت کا اسکور بڑھانے کے لیے یہ کھیل خاصا مقبول رہا ہے۔ عوام میں سستی مخالفت کیش کرنے کے لیے یہ فتویٰ گری بڑی کار گر ہے۔

خدا کے لیے سیاست ضرور کریں مگر ایسے کھیل کو اس کا حصہ نہ بنائیں، سیاست کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے خود ساختہ، بے بنیاد فتوے دینے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے ورنہ سیاسی استحکام کبھی پیدا نہیں ہوگی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Sharminda Nov 24, 2016 02:29pm
Siasatdaano say ummed rakhna baikar hai. In ko awam banati hai. Awam hi ko apna qibla drust karna ho gaa nahin tu; khua nay aaj tak us qoam ki halat nahin badli na ho jis ko khayal aap apni halat kay badlnay ka
Kokab Niazi Nov 24, 2016 02:46pm
سیاست میں واقعی اصول ہونے چاہئیں ورنہ اللہ ہی حافظ ہے