اسلام آباد: سینیئر وکیل حامد خان کی جانب سے پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی نمائندگی سے معذرت کے بعد یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ اب ان کی جگہ تحریک انصاف کی نمائندگی کون کرے گا؟

سینئر وکیل حامد خان کے متبادل کا حتمی فیصلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان 22 نومبر کو لندن سے واپس آنے کے بعد کریں گے۔

اسی اثناء میں بار رومز میں یہ گرما گرم بحث جاری ہے کہ اس ہائی پروفائل کیس میں اب پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کی سربراہی کون کرے گا ؟

اس بات پر تقریباً سب متفق ہیں کہ وہ شخصیت اعتزاز احسن نہیں ہوں گے جن کا نام حامد خان کے ممکنہ متبادل کے طور پر سامنے آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: حامد خان کی پی ٹی آئی کی نمائندگی سے معذرت

اعتزاز احسن کے قریب سمجھے جانے والے ایک سینیئر وکیل نے بتایا کہ ’اگرچہ اس بات کی کوئی تردید نہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اعتزاز احسن سے رابطہ کیا گیا ہے لیکن وہ کیوں یہ ذمہ داری قبول کریں گے جبکہ انہوں نے تو خود پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کے حوالے سے پٹیشن دائر کرنے کی کوششوں کی بھرپور مخالفت کی تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ٹیم کو بتادیا گیا ہے کہ حتمی فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا تاہم ساتھ ہی انہیں یہ بھی باور کرادیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں مثبت نتیجے کی توقع نہ رکھی جائے۔


شائد ’مفادات کے تصادم‘ کی وجہ سے اعتزاز احسن یہ کیس نہ لیں


اعتزاز احسن کو پاناما گیٹ کیس کا خلاصہ حاصل کرنے میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں کیوں کہ کیس کی پہلے ہی کئی سماعتیں ہوچکی ہیں۔

اعتزاز احسن ماضی میں پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعظم نواز شریف کے انتخابی معاملات کا دفاع کرتے رہے ہیں جبکہ بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کا دفاع بھی کرچکے ہیں۔

اس حوالے سے جب پارٹی پالیسی پوچھی گئی تو ترجمان پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عمومی گائیڈ لائنز ہیں کہ کوئی بھی پارٹی کا رکن سیاسی مقدمات کی پیروی کرنے سے قبل اعلیٰ قیادت سے اجازت طلب کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ حریف سیاسی جماعت کی جانب سے منعقد کردہ سماجی تقریبات میں شرکت سے قبل بھی ارکان کو پارٹی قیادت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔

مزید پڑھیں: حامد خان کی کارکردگی کو غلط انداز میں لیا گیا، اعتزاز احسن

سپریم کورٹ بار ایسویس ایشن کے سابق صدر طارق محمود نے پاکستان لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل ایکٹ 1973 کے رول 148 کی نشاندہی کی جو کلائنٹس کے ساتھ وکلاء کے طرز عمل کا تعین کرتا ہے اور یہ وضاحت کرتا ہے کہ اگر مفادات کے تصادم کا خطرہ ہو تو وکیل کیس نہیں لے گا۔

انہوں نے کہا کہ حامد خان لاء فرم کورنیلیئس ، لین ، مفتی میں سینئر پارٹنر تھے جبکہ وزیر اعظم کے وکیل اسی فرم میں جونیئر پارٹنر تھے اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ جونیئر ممبر فریق ثانی کی پیروی نہیں کرے گا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید اے رضوی سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا 30 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ حامد خان کو کیس سے دستبردار ہونے کی اجازت دے گی کیوں کہ انہوں نے دلائل دینے شروع کردیے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: شریف خاندان کے خلاف شواہد سپریم کورٹ میں جمع

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر کوئی وکیل ذاتی وجوہات کی بناء پر کیس سے علیحدہ ہونا چاہتا ہو تو عدالت اسے مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ نمائندگی جاری رکھے۔

اگر حامد خان اپنے فیصلے پر برقرار رہتے ہیں تو سینیئر وکلاء جیسے نعیم بخاری اور ڈاکٹر بابر اعوان کیس کی پیروی کرسکتے ہیں۔

یہ خبر 20 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں