آپ میں سے شاید بہت کم لوگ حسن سدپارہ کے نام سے واقف ہوں گے اور شاید اس سے بھی کم لوگوں نے ان کے انتقال کی خبر سنی ہوگی۔ تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حسن سدپارہ کوہ پیمائی کی دنیا میں پاکستان کی وہ شناخت بنے جنہوں نے مختصر عرصے میں ماؤنٹ اویرسٹ، کے ٹو، نانگا پربت، مشہ بروم، گیشہ بروم جیسی دنیا کے آٹھ ہزار میٹر بلند 6 چوٹیاں سر کیں۔

بغیر آکسیجن اور مانگے تانگے کی اشیاء کے ساتھ، حسن سدپارہ راکھ کے ڈھیر میں ہیرے تلاشتی ہماری قوم کا وہ سرمایہ تھا جو بازارِ مصر میں اپنی بے قیمتی کا گلہ بھی نہ کر سکا۔ خالی ہاتھ آیا اور خالی ہاتھ چلا گیا۔ وہ کون تھا؟ کہاں کا تھا اور کیا کرتا تھا؟ یہ جاننا ضروری ہے۔ یہ ہمار المیہ بھی ہے اور ہمارے فخر کے لمحات میں سے ایک مختصر لمحہ بھی۔

وکی پیڈیا، فیس بک، ٹوئٹر کی آمد اور نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں پھٹتے جہازوں سے بہت پہلے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ایک تصویر ہوا کرتی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب با کمال لوگ لاجواب سروس والی پی آئی اے کے پروں پر سفارش اور نا اہلی کا پانی نہیں پڑا تھا۔

پڑھیے: رجب شاہ: 'کوئی قدر نظر نہیں آتی'

انہی دنوں پی آئی اے نے ایک تصویری سلسلہ شروع کیا تھا۔ ویسے تو اس میں پاکستان کے مختلف سیاحتی مقامات کی تصاویر تھیں مگر سب سے زیادہ شہرت گلگت بلتستان کے حصے میں آئی۔ دیوسائی کے بڑے پانی کے کچے پل سے گزرتی ویلیز جیپ اور اس کا کسی مفلس کے ایمان کی طرح ڈگمگاتا توازن، اور ہنزہ کی دھنک رنگ بہار، جس کو چھاپتے چھاپتے رنگ ساز کے پرنٹر کے سارے رنگ خالی ہو جائیں، سدپارہ کی نیلگوں اداسی کے گرد ایک ادائے بے اعتنائی سے لپٹی سبزے کی چادر کہ جس کو دیکھ کر نیشنل جیوگرافک کی شربت گل بھی شرما جائے۔

حسن سدپارہ اسی جھیل سے ذرا اوپر ایک گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔

پاکستان بننے سے بھی پہلے، دیوسائی کے آخری کنارے پر آباد، استور کے پہلے گاؤں چلم سے میرے دادا اور ان کے ساتھی سردیوں کی محنت کا ثمر چند کلو گھی، کچھ مال مویشی اور ہاتھ کے بنے ہوئے رسوں پر لدے ہوئے بھاری بسترے لے کر اسکردو جایا کرتے تھے تو سدپارہ جھیل سے ذرا اوپر گاؤں والے ان تھکے مسافروں کا سہارا ہوا کرتے تھے۔

ان دنوں کسی مسافر سے کھانے کا بل یا رات ٹھہرنے کا کرایہ لینے کا رواج نہ تھا، مہمان نوازی نہ تو ایک بوجھ تھی نہ ہی فرض کفایہ کہ ایک کے ادا کر دینے سے باقی شانت ہو جاتے ہوں۔ کسی نصاب کی کتاب کو نہ یہ درس سکھانا پڑتا اور نہ ہی اخبار کے اشتہارات معاشرتی قدریں سلجھاتے۔

پڑھیے: سفر نامہ اسکردو: دیومالائی حسن کی سرزمین

دریا کے پانی میں شامل معدنیات کی طرح کچھ چیزیں خود بخود آپ کے وجود کا حصہ بن جاتی تھیں۔ حسن سدپارہ اسی روایت کا امین تھا۔ سادہ، مخلص، ہر وقت خدمت کے لیے تیار۔ پاکستان میں کوہِ پیمائی کی ترویج کے لیے ایک اسکول کے قیام کا خواب لیے پاکستان کی کسی بھی علاقے سے آئے کوہ پیمائی کے کسی بھی شوقین کی مدد کے لیے کمر بستہ۔

کتنے ہی لوگ تھے جو اسکردو بازار میں اس کی دوکان سے کوہ پیمائی کا پرانا مال تو لے گئے مگر ساتھ ہی ساتھ خلوص اور مشورے کی ایک پوٹلی بھی اپنے بغل میں باندھے لے گئے جن کی خوشبو کنکورڈیا بیس سے لاہور تک اس کی یاد دلاتی رہتی ۔

اسکردو کے عظیم بادشاہ شیر علی انچن نے صدیوں پہلے اسکردو کے تمام داخلی راستوں پر شین قوم کو لا کر آباد کیا تھا۔ حسن سدپارہ اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس کی جفاکشی، سخت جان قراقرم کے دامن میں آباد قبائل کے لیے بھی ضرب المثل ہے۔

ان کی فتوحات مغربی کوہ پیماؤں کی طرح کسی جسمانی تربیت، فوڈ سپلیمنٹ یا ٹرینینگ رجیم کی پیدوار نہ تھیں بلکہ جفاکشی کی اس ریت کا نتیجہ تھا کہ جسے اقبال نے بندہ صحرائی یا مرد قہستانی کہہ کر پکارا ہے۔

حسن سدپارہ جہاں روایتیں نبھاتا تھا وہاں اپنے حصے کی روایت سے باغی بھی تھا۔ جب ہم اجتماعی طور پر شکوہ گری کے مرض میں مبتلا تھے تو وہ اکلوتا تھا جس نے تیشہ اٹھایا اور اپنے حصے کے پہاڑ خود کاٹتا چلا گیا۔

پڑھیے: قراقرم کے اصل ہیروز

ایک غریب پورٹر کی حیثیت سے آغاز کیا، ایک بے سروسامان کوہ پیما کی حیثیت سے ایک ایک کوہ گراں سر کیا۔ کہتے ہیں کہ کسی کام کو نہ کرنے کی ہزار وجوہات ہو سکتی ہیں اور اسے کر دینے کی بس ایک۔ اس کی کہانی ہر اس یاسیت پسند کے لیے سبق ہے جو تقدیر سے خیرات کی امید لیے بیٹھا ہے۔

**ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ

غالب وکار آفریں ، کار کشا، کارساز**

بلند عزائم کے ساتھ مشکلات لڑتا حسن سدپارہ بلآخر ماؤنٹ اویرسٹ بھی سر کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس نے نہ صرف وہاں پاکستان کا جھنڈا گاڑا بلکہ عَلم بھی نصب کیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر منجمند یہ کپڑے کا ٹکڑا ازل تک ہماری نمائندگی کرتا رہے گا۔

حسن سدپارہ جہانگیر خان، جان شیر خان، شہباز احمد، علی شاہ اور بہت سارے کھلاڑیوں کی طرح اس نظریے کا نام ہے جو زندگی میں پیسہ، خاندان، سفارش اور توصیف کی جھوٹی بیساکھیوں کے سہارے نہیں بلکہ اپنے زور بازو کے طفیل جیے۔ نفرتوں اور کدورتوں کے صحرا میں لگے یہ برگد کے وہ درخت ہیں کہ جن کے کٹ جانے پر کسی اور کو احساس ہو نہ ہو، ان پرندوں کو ضرور ہوگا جو اس کی نرم شاخوں پر چہچہاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں