اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے گذشتہ 24 سال سے قید قتل کے ملزم فاروق مظہر کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ ملزم مظہر فاروق پر 1992 میں قصور میں نثار احمد نامی شخص کے قتل کا الزام تھا، جس پر مظہر فاروق کو قصور کی سیشن کورٹ نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا جسے ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔

ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف مظہر فاروق نے 2011 میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں پراسیکوشن کی تفتیش اور گواہان کے بیانات میں تضاد ہے اور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں تمام حقائق کو مد نظر نہیں رکھا۔

مقتول کے وکیل اصغر گل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم مظہر فاروق نے دن دہاڑے زمینوں کے تنازعے پر قتل کیا اور 3 سال تک مفرور رہا، ملزم دیگر جرائم میں بھی ملوث ہے۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ میڈیکل رپورٹس اور گواہان کے بیانات میں تضاد ہے اور استغاثہ ملزم کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے، جبکہ برآمد ہونے والا پستول بھی ملزم کا نہیں تھا، لہذا مظہر فاروق اگر کسی اور مقدمے میں ملوث نہیں تو اسے فوری رہا کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں