لاہور: بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب مسافر بس اور ایمبولینس کو نشانہ بنائے جانے کے باعث پاک بھارت کشیدگی عروج پر پہنچنے کے بعد پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (ڈی پی پی) نے بھارت سے واہگہ بارڈر کراسنگ اور کراچی پورٹ کے ذریعے کاٹن و دیگر زرعی اشیا کی درآمد روک دی۔

ڈیپارٹمنٹ نے بھارت سے مستقبل میں درآمد کے لیے پرمٹ کا اجرا بھی روک دیا ہے۔

بدھ کو بھارت کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں 3 پاکستانی فوجی اور 10 شہری ہلاک ہوئے تھے۔

کاٹن درآمد کرنے والوں اور کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس نے دعویٰ کیا کہ ایل او سی پر کشیدگی بڑھنے کے بعد پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ نے بغیر تنبیہ یا تحریری حکم نامہ جاری کیے بغیر بھارت سے زرعی اشیا کی درآمد روک دی۔

تاہم وزارت قومی فوڈ سیکیورٹی و تحقیق کے ذیلی شعبے ڈی پی پی کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ عمران شامی نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: مظفرآباد: بھارتی فوج کی بس پر فائرنگ، 9 افراد جاں بحق

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے بھارت سے ٹماٹر و دیگر تازہ سبزیوں کی درآمد اپنے کسانوں کے تحفظ کے خاطر روکی، ہمارے پاس ٹماٹر و دیگر سبزیوں کا وافر مقدار میں اسٹاک موجود ہے اور ہم بھارت سے ان کی درآمد اس وقت کرتے ہیں جب مقامی مارکیٹ میں ان کی قلت ہوتی ہے۔‘

صاحبزادہ عمران شامی نے بھارت سے کاٹن کی درآمد معطل کیے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بھارت سے کاٹن کی درآمد بند نہیں کی بلکہ ان رپورٹس کی روشنی میں روکی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی برآمد کنندگان ہماری بائیو سیکیورٹی کنڈیشنز پوری نہیں کر رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں اور اگر ہمارے خدشات غلط ثابت ہوئے تو کاٹن کی درآمد پر عائد پابندی اٹھالی جائے گی۔‘

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ کاٹن کی ان کھیپوں کو زمینی و سمندری راستوں کے ذریعے پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے گی، جن کے درآمد کنندگان کے پاس پہلے سے ڈیپارٹمنٹ کا اجازت نامہ اور فائیٹو سینیٹری سرٹیفکیٹ موجود ہے۔

اس حوالے سے ایک ٹیکسٹائل فیکٹری کے مالک نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری کاٹن کی کھیپ کو واہگہ اور کراچی پورٹ کے ذریعے نامعلوم وجوہات کی بنا پر پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی، لیکن سستے اور سبسیڈائزڈ بھارتی سوت (یارن) بغیر کسی رکاوٹ کے پاکستان آرہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جمعرات کو بھارتی سوت کے کم از کم 11 ٹرک پاکستان آئے، حالانکہ ڈیپارٹمنٹ نے بھارت سے کاٹن کی کھیپ کی درآمد بند کردی ہے۔‘

مزید پڑھیں: ایل او سی: 'حوصلہ چھوڑ دیتا تو کچھ بھی نہ بچتا'

ایک اور ٹیکسٹائل مینوفیکچرر نے دعویٰ کیا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ بھارت سے درآمد سرحد پر کشیدگی کے باعث بند کی گئی ہے، جس کے باعث واہگہ بارڈر کی بھارتی سائیڈ پر ہماری کھیپ پھنسی ہوئی ہے حالانکہ انہیں منگوانے کے لیے ہمارے پاس پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کا اجازت نامہ بھی موجود ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بھارت سے کاٹن کی درآمد کی معطلی سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لیے بڑی مشکل کھری ہوجائے گی، کیونکہ رواں سال کے لیے کاٹن کا مقامی طور پر ایک کروڑ 12 لاکھ بیلز کا ہدف حاصل کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، جبکہ انڈسٹری کی ضرورت ایک کروڑ 40 لاکھ بیلز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت سے درآمد پر پابندی کے بعد کاٹن کی قلت کا خسارہ مقامی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتیں بڑھانے کے بعد پورا ہوگا۔‘

پاکستان نے 2015-16 میں بھارت سے کاٹن کی 2 کروڑ 70 لاکھ بیلز درآمد کی تھی، جو بھارت کی کاٹن کی کل برآمد کا 40 فیصد تھا، جبکہ ایک بیل میں 170 کلو کاٹن ہوتی ہے۔


یہ خبر 26 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Pakistani Nov 26, 2016 11:10am
2 crore 70 lakh bales naheen balkeh 27 lakh (2.7 Million) bales hon gee... پاکستان نے 2015-16 میں بھارت سے کاٹن کی 2 کروڑ 70 لاکھ بیلز درآمد کی تھی، جو بھارت کی کاٹن کی کل برآمد کا 40 فیصد تھا، جبکہ ایک بیل میں 170 کلو کاٹن ہوتی ہے۔