پشاور: خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی کا اتحاد بینک آف خیبر کے مینجنگ ڈائریکٹر( ایم ڈی) کو نہ ہٹانے اور صوبائی چیف خطیب کی تقرری نہ کرنے سمیت دیگر کئی معاملات کی وجہ سے اختلافات کا شکار ہے۔

جماعت اسلامی کے اندرونی ذرائع نے ڈان اخبار کو بتایا کہ جماعت اسلامی نے کئی بار اپنے مطالبات کی فہرست تحریک انصاف کے حوالے کی ہے،مگر پی ٹی آئی قیادت نے اس پر کوئی خاطر خواہ رد عمل ظاہر نہیں کیا، جس وجہ سے دونوں جماعتوں کا ساڑھے 3 سال کا اتحاد اختلافات کا شکار ہے۔

اندرونی ذرائع کے مطابق مطالبات تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی قیادت کو کارکنان کے سامنے شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے،اور جماعت اسلامی ایسے معاملات کا اظہار پی ٹی آئی قیادت سے بھی کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: خیبر بینک کا صوبائی وزیرخزانہ کے خلاف اشتہار

خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں درسی کتابوں کے نصاب پر بحث کے دوران صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کی جانب سے رکن اسمبلی کے خلاف طنزیہ جملوں پر بھی جماعت اسلامی پی ٹی آئی سے ناراض ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حال ہی میں جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے نوشہرہ میں ہونے والے اہم اجلاس کے دوران سینیئر صوبائی وزیر عنایت اللہ کو ذاتی طور پور تحریک انصاف کے اتحاد کو ختم کرنے کے لیے مناسب تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی ۔

جماعت اسلامی کی جانب سے تحریک انصاف کو دی گئی مطالبات کی فہرست میں بینک آف خیبر کے ایم ڈی کے خلاف کارروائی، صوبائی چیف خطیب کا تقرر، بلدیاتی افسران کی جانب سے جماعت اسلامی کے ضلعی ناظمین سے تعاون نہ کرنے، درسی کتابوں میں نصاب کی تبدیلی اور پرائمری اسکولوں میں مذہبی تعلیمات کے اساتذہ کی بھرتی جیسے مطالبات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بینک آف خیبر کے ایم ڈی اور وزیر خزانہ میں صلح ہوگئی

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت جان بوجھ کر مطالبات پر تاخیر کر رہی ہے، جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے صوبائی وزیرغیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

مطالبات تسلیم ہونے میں تاخیر کے باعث جماعت اسلامی کے وفد نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے ملاقات بھی کی، جس کے بعد جماعت اسلامی کی جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ وفد کی جانب سے وزیر اعلیٰ سے بینک آف خیبر کے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے لیے بینک آف خیبر کے مینجنگ ڈائریکٹر کا معاملہ ایک جیسا نہیں ہے، جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ حکومت بینک آف خیبر کے ایم ڈی کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی کی روشنی میں قانونی کارروائی کرے، کیونکہ بینک انتظامیہ پہلے ہی اشتہارات کے ذریعے معافی مانگ چکی ہے۔

مزید پڑھیں: سراج الحق اورعمران خان میں دوریاں

جماعت اسلامی کے مطابق ایم ڈی بینک آف خیبر معافی کے اشتہار کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر خزانہ کے احکامات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں،جب کہ ایم ڈی بینک کی نئی برانچز کے افتتاح کے لیے قریبی تعلقات کے افراد کو دعوت دے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد میں صوبائی چیف خطیب کا تقرر بھی آڑے آ رہا ہے، صوبائی چیف خطیب کا عہدہ قاری روح اللہ مدنی کی ریٹائرمنٹ کے بعد گزشتہ ایک سال سے خالی ہے، جبکہ جماعت اسلامی نے چیف خطیب کے لیے ایک سال قبل ہی مولانا اسماعیل کو تقرر کرنے کی سمری وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو بھجوائی تھی۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر برائے مذہہی امورحبیب الرحمٰن کے مطابق چیف خطیب کا تقرر وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے، چیف خطیب کا عہدہ 18 ویں گریڈ کے افسر کا اعزازی عہدہ ہوتا ہے،جس کے لیے اشتہار دینا لازمی نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: کے پی کے نصاب سے اسلامی مواد کے اخراج پر جماعت اسلامی برہم

صوبائی وزیر کے مطابق مولانا اسماعیل کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہے، پارٹی نے ان کا نام ہی تجویز کیا تھا،جس کے بعد صوبائی وزارت برائے مذہبی امور نے ایک ماہ قبل ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کو سمری بھجوائی۔

جماعت اسلامی کے دوسرے مطالبات میں پرائمری اسکولوں میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے اساتذہ کا تقرر، نصابی کتابوں میں قومی ہیروز سے متعلق مضامین، اپر دیر، بونیر اور چترال میں زیر تعمیر جامعات کے کام میں تیزی اور تیمرگرہ سمیت لوئر دیر میں میڈیکل کالج کے قیام جیسے مطالبات شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: مذہبی جماعتوں کا خوف، خیبرپختونخوا میں نصابی کتابوں کا جائزہ موخر

صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جماعت اسلامی کو اپنے مطالبات میڈیا میں پیش کرنے کے بجائے احسن طریقے سے حکومت کے سامنے رکھنے چاہئیں۔

صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ جماعت اسلامی نے اساتذہ کے تقرر اور نصابی کتابوں میں قومی ہیروز کے مضامین شامل کرنے جیسے مطالبات پی ٹی آئی قیادت کے سامنے نہیں رکھے، جبکہ جماعت اسلامی کے مطالبے پر نصابی کتابوں سے خامیاں دور کردی گئی ہیں۔


یہ رپورٹ 27 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں