جنرل راحیل شریف چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے سکبدوش ہوگئے جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی قیادت سنبھال لی۔

راولپنڈی کے آرمی ہاکی اسٹیڈیم میں پاک فوج کی کمانڈ میں تبدیلی کی پروقار تقریب ہوئی جہاں جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی جگہ پاک فوج کی کمان سنبھال لی۔

جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی ’کمانڈ اسٹک‘ جنرل قمر باجوہ کے سپرد کی اور یوں جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کے 16 ویں چیف آف آرمی اسٹاف کا منصب سنبھال لیا۔

تقریب کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد پاک فوج کے چاک و چوبند دستے نے تقریب کے مہمان خصوصی جنرل راحیل شریف اور کمان سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کو سلامی پیش کی۔

جنرل راحیل شریف نے کمانڈ اسٹک نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کی — فوٹو بشکریہ آئی ایس پی آر
جنرل راحیل شریف نے کمانڈ اسٹک نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کی — فوٹو بشکریہ آئی ایس پی آر

جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔

تقریب میں اعلیٰ عسکری حکام موجود تھے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق و دیگر وزراء بھی تقریب میں شریک تھے۔

سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی تقریب میں موجود تھے — فوٹو / ڈان نیوز
سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی تقریب میں موجود تھے — فوٹو / ڈان نیوز

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد ذکاء اللہ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل سہیل امان اور سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی بھی مہمانوں میں شامل تھے۔

تقریب میں ملٹری بینڈ نے مارچ پاسٹ کرتے ہوئے قومی ترانوں اور علاقائی نغموں کی دھنیں بجاکر شرکاء کا جوش و جذبہ مزید بلند کیا۔

کمان کی تبدیلی کی تقریب سے قبل سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور کمان سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے یاد گار شہداء پر حاضری دی اور پھول چڑھائے۔

بھارت تحمل کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھے، راحیل شریف

اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں کہا کہ ’میں اللہ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے دنیا کی بہترین فوج میں خدمات انجام دینے کا اعزاز عطا کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ایک سپاہی کے لیے ایسی بہاد، فرض شناس اور باصلاحیت فوج کے ساتھ وابستگی سے بڑھ کر زندگی میں کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ ’میں پاک فوج کے شہداء اور ان کے لواحقین کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں‘۔

جنرل راحیل نے کہا کہ بطور آرمی چیف انہوں نے ہر فیصلہ کرتے ہوئے قومی مفاد کو مد نظر رکھا اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی اور پاک فوج کی پوری توانائی صرف کی۔

انہوں نے کہا کہ اس سفر میں انہیں قوم کا مکمل تعاون حاصل رہا جس کے لیے وہ پاک آرمی کے تمام افسران اور قوم کے شکر گزار ہیں۔

راحیل شریف نے امید ظاہر کی کہ پاک فوج قوم کے اعتماد پر ہمیشہ پورا اترے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کامیابی کے اس لمبے سفر میں فوج کے ساتھ پولیس، رینجرز، ایف سی اور لیویز نے بھی بیش بہا قربانیاں پیش کیں خصوصاً انٹیلی جنس ایجنسیز نے ان کامیابیوں میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے ان تمام اداروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے آپریشن ضرب عضب کے دوران حب الوطنی، شجاعت اور پیشہ وارانہ کامیابیوں کے ایسے اعلیٰ معیار قائم کیے جس کی مثال عصر حاضر میں نہیں ملتی۔

جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’دفاع وطن کے لیے ہماری بہادر فوج کے ساتھ ساتھ شہریوں بشمول خواتین، بچوں، جوانوں اور بزرگوں نے بھی قربانیاں پیش کیں، میں ان تمام شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں‘۔

ملٹری بینڈ نے ملی نغموں کی دھنیں بکھیرتے ہوئے مارچ پاسٹ کیا — فوٹو بشکریہ آئی ایس پی آر
ملٹری بینڈ نے ملی نغموں کی دھنیں بکھیرتے ہوئے مارچ پاسٹ کیا — فوٹو بشکریہ آئی ایس پی آر

انہوں نے پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’ناپاک عزائم رکھنے والوں کے خلاف پاک فوج ایک عظیم ترین دفاعی قوت ہے‘۔

’ہم نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ کر تاریخ کے دھاے کو موڑا اور اس خطے اور بالخصوص پاکستانی قوم کو امن کی امید دی، بلوچستان اور کراچی میں امن کا قیام ہو، آپریشن ضرب عضب ہو یا سی پیک پروجیکٹ ہر میدان میں کامیابی کے ثمرات واضح نظر آرہے ہیں‘۔

راحیل شریف نے اس موقع پر سیاسی قیادت اور میڈیا کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ ان کا تعاون بھی فوج کی کوششوں میں شامل رہا۔

انہوں نے پاک فضائیہ اور بحریہ کے ہم منصبوں اور سربراہان کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’مسلح افواج کا باہمی ربط اور تعاون ہمارا بیش قیمت اثاثہ ہے جس پر ہمیں فخر ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں سیکیورٹی کے حالات پیچیدہ ہیں اور ہمیں درپیش خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے، حالیہ سالوں میں حاصل کردہ کامیابیوں کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ شہداء کی قربانیوں کو کسی صورت بھلایا نہ جائے۔

’وقت کا تقاضہ ہے کہ پوری قوم اور ادارے یکسوئی کے ساتھ صورتحال کا ادارک کرے، بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے اندرونی کمزوریوں خصوصاً کرپشن اور شدت پسندی کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد لازم ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مکمل امن کے حصول کے لیے ہمارا سفر قدم بہ قدم جاری ہے اور ہم نے بتدریج دنوں سے ہفتوں اور ہفتوں سے مہینوں کا استحکام حاصل کرلیا ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ منزل اب دور نہیں، خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی پاک فوج ان کے مکمل سد باب تک مصروف عمل رہے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حالیہ مہینوں میں مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی اور بھارت کے جارحانہ اقدامات نے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا۔

راحیل شریف نے کہا کہ ’میں بھارت پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری تحمل کی پالیسی کو کسی قسم کی کمزوری سمجھنا خود اس کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیر پا امن اور ترقی مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں جس کے لیے عالمی برادری کی خصوصی توجہ ضروری ہے‘۔

افغانستان کے حوالے سے راحیل شریف نے کہا کہ ’ہم نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مخلصانہ اور سنجیدہ کردار ادا کیا ہے، خطے میں امن کے لیے لازم ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی مفاہمت کے ذریعے حل کیا جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں امن و خوشحالی کی بڑی ضمانت چائنا پاکستان اقتصادی راہداری ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ سی پیک کے دشمن اپنی کوششیں ترک کرکے اس کے ثمرات میں شریک ہوں۔

’پہلے تجارتی قافلے کی گوادر سے روانگی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب یہ سفر رکنے والا نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاک فوج سے رخصت ہوتے ہوئے مجھے فخر ہے کہ میری زندگی اور خدمات ہمیشہ عظیم ترین قوم اور سب سے تابناک پروفیشن کے لیے وقف رہی‘۔

راحیل شریف نے کہا کہ میں اداروں کے استحکام اور برتری پر یقین رکھتا ہوں اور اس ضمن میں ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تمام ادارے مل کر ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے کام کریں۔

مزید پڑھیں: جنرل قمر جاوید باجوہ نئے آرمی چیف مقرر

انہوں نے کہا کہ ’کمانڈ کی یہ تبدیلی فوج کی عظیم اور اعلیٰ اقدار کے تسلسل کی علامت ہے، پاک فوج کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے نئے سپہ سالار اعلیٰ پیشہ وارانہ مہارت اور مضبوط قوت فیصلہ کے حامل ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ قمر جاوید باجوہ کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تقرری فوج کے ہر جوان کے لئے اس امر کی ضامن ہے کہ وہ اپنے اوپر کیے گئے اعتماد پر پورا اتریں گے۔

یاد رہے کہ صدر ممنون حسین نے 26 نومبر 2016 کو وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پر لیفٹننٹ جنرل زبیر محمود حیات اور لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی تھی جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل زبیر نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی کمان سنبھال لی
ملٹری بینڈ نے ملی نغموں کی دھنیں بکھیرتے ہوئے مارچ پاسٹ کیا — فوٹو / ڈان نیوز
ملٹری بینڈ نے ملی نغموں کی دھنیں بکھیرتے ہوئے مارچ پاسٹ کیا — فوٹو / ڈان نیوز

گزشتہ روز جنرل زبیر محمود حیات نے بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی کمان سنبھالی تھی۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی چینج آف کمانڈ کی باضابطہ تقریب جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں ہوئی تھی جہاں جنرل راشد محمود نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کو کمانڈ سونپی۔

جنرل قمر باجوہ

لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں انسپکٹرجنرل آف ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن تعینات تھے، یہ وہی عہدہ ہے جو آرمی چیف بننے سے قبل جنرل راحیل شریف کے پاس تھا۔

قمر جاوید باجوہ آرمی کی سب سے بڑی 10 ویں کور کو کمانڈ کرچکے ہیں جو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔

جنرل قمر باجوہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج (ٹورنٹو)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹیری (کیلی فورنیا)، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ ہیں۔

نئے مقرر کیے گئے فوجی سربراہ کو کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں معاملات کو سنبھالنے کا وسیع تجربہ ہے، بطور میجر جنرل انہوں نے فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کی سربراہی کی۔

انہوں نے 10 ویں کور میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر بھی بطور جی ایس او خدمات انجام دی ہیں۔

کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ دہشت گردی کو پاکستان کے لیے ہندوستان سے بھی بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں انڈین آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کے ساتھ بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرچکے ہیں جو وہاں ڈویژن کمانڈر تھے۔

وہ ماضی میں انفینٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو توجہ حاصل کرنے کا شوق نہیں اور وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

ان کے ماتحت کام کرنے والے ایک افسر کے مطابق وہ انتہائی پیشہ ور افسر ہیں،ساتھ ہی بہت نرم دل بھی ہیں جبکہ ان کو غیر سیاسی اور انتہائی غیر جانبدار سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے 16 بلوچ رجمنٹ میں 24 اکتوبر 1980 کو کمیشن حاصل کیا، یہ وہی رجمنٹ ہے جہاں سے ماضی میں تین آرمی چیف آئے ہیں اور ان میں جنرل یحیٰ خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل کیانی شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں