اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جہاں میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی گئی، وہیں عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے پاس دبئی، سعودی عرب اور لندن فلیٹس کا کوئی منی ٹریل نہیں۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور مسلم لیگ (ن) کے وزراء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عدالت میں پی ٹی آئی کی نمائندگی نعیم بخاری اور بابر اعوان نے کی جبکہ وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور ان کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ بھی عدالت میں موجود تھے۔

تحريک انصاف کے وکیل نعيم بخاری نے ايک بار پھر وزيراعظم کے قوم سے خطاب، مريم نواز کی بينفشری، دبئی فيکٹری کی فروخت اور لندن فليٹ کی خريداری پر دلائل دیتے ہوئے کہا وزیراعظم نے غلط بیانی کی۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ دبئی فيکٹری بے نامی تھی، کب بنی نہيں بتايا گیا۔

جسٹس آصف سعيد کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی تقریرمیں سرمایہ بچوں کے استعمال کرنے کا بتايا گیا، جدہ اسٹیل مل کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور آیا یہ سرمایہ فلیٹس کے لیے استعمال کیا گیا وہ نہیں بتایا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کيا کہ سعودی بنکوں سے قرضہ کیسے لیا گیا؟ جدہ فيکٹری کتنے میں اور کیسے فروخت کی گئی؟

جسٹس عظمت سعيد نے اس موقع پر کہا کہ دستاویزات ہر جگہ موجود ہوں گی لیکن عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

جسٹس آصف سعيد کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 'لگتا ہے سب کچھ میاں شریف نے کیا ہے، ساری دستاویزات میاں محمد شریف کے بارے میں ہیں ،میاں شریف کے بچوں اور پھر ان کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا'۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہاز شریف کے کزن طارق شفیع کے دو مختلف دستاویزات میں کیے گئے دستخطوں میں کوئی مماثلت نہیں، انھوں نے الزام عائد کیا کہ دستاویزات پر دستخط شہبازشریف نے طارق شفیع بن کر کيے۔

نعيم بخاری نے بتايا کہ دبئی مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ تک نہیں ملا۔

جسٹس کھوسہ نے اس موقع پر کہا کہ طارق شفیع کو ملنے والے 12 ملين درہم کے دستاویزات موجود نہیں۔

جس پر وکیل اکرم شیخ نے جواب دیا کہ وہ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل ہیں، طارق شفیع کی نمائندگی نہیں کر رہے۔

سماعت کے دوران جج صاحبان کی اخباری حوالوں پر پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری سے تکرار بھی ہوئی، عدالت نے کہا کہ 'بخاری صاحب اگر ہم نے اخباری خبروں پر فیصلہ دیا تو آپ کے مؤکل کے لئے بھی پریشانی ہو سکتی ہے'۔

بعدازاں کیس کی سماعت منگل 6 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

حامد خان کے معاملے کی گونج

دوران سماعت درخواست گزار ایڈووکیٹ طارق اسد نے عدالت عظمیٰ کی توجہ اس جانب دلائی کہ حامد خان سے متعلق میڈیا میں بہت سی باتیں کی گئیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حامد خان بہت سینیئر اور اہل قانون دان ہیں اور قانون سے متعلق کتاب بھی لکھ چکے ہیں، لہذا میڈیا میں ان سے متعلق باتوں سے ان کے قد کاٹھ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے پاناما لیکس کے حوالے سے میڈیا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی۔

اس موقع پر طارق اسد ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ میڈیا کو کیس پر تبصروں سے روکا جائے، کیونکہ تبصروں سے کیس پر اثر پڑے گا۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس: حامد خان کی پی ٹی آئی کی نمائندگی سے معذرت

یاد رہے کہ پاناما لیکس پر درخواستوں کی گذشتہ سماعت کے بعد سینئر وکیل اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حامد خان نے پی ٹی آئی کی نمائندگی سے معذرت کرلی تھی۔

حامد خان نے میڈیا پر جاری مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے لیے کیس کی مزید پیروی کرنا ممکن نہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں جاری پاناما پیپرز کے مقدمے میں حامد خان اور نعیم بخاری پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما کیس سے حامد خان کی دستبرداری پر عمران مایوس

رواں ماہ 17 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے پی ٹی آئی کے شواہد کے معیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کی 680 صفحات پر مشتمل دستاویزات کا شریف خاندان کی لندن میں جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے ایک جج کی جانب سے یہ ریمارکس بھی دیئے گئے تھے کہ ’ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کونسا وکیل کس کی نمائندگی کر رہا ہے'۔

گذشتہ سماعتیں

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعدازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔

3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرائے تھے۔

عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔

یہاں پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔

7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

15 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات اور زمینوں کے انتقال نامے بھی شامل تھے۔

عدالت میں قطر کے سابق وزیر خارجہ شہزادے حماد بن جاسم بن جبر الثانی کا تحریری بیان بھی پیش کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی وکیل سے سوال

بعدازاں 17 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر جمع کرائے گئے شواہد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ 680 صفحات پر مشتمل جواب کا شریف خاندان کی لندن میں موجود جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

عدالت کا کہنا تھا، 'ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون سا وکیل کس کی نمائندگی کررہا ہے'.

عدالت نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کو موصول ہونے والی دستاویزات کی تعداد واضح کرتی ہے کہ کارروائی 6 ماہ میں بھی مکمل نہیں ہوسکے گی، بعدازاں کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔

جس کے بعد حامد خان نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں پی ٹی آئی کی نمائندگی سے معذرت کرلی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

israr Muhammad khan yusafzai Dec 01, 2016 12:34am
عدالت سے درخواست ھے کہ پاناما لیکس یا کوئی کیس ھو جو عدالت میں زیرسماعت ھو پر ھر قسم کی تبصرے پر پابندی لگانی چاہئے ایسا اس لئے بھی ضروری ھے کیونکہ ہر سیاسی مقدمہ میں جو عدالت میں ھو ٹی وی چینل والے ہر رات کوئی نہ کوئی تبصرہ کرتے ھیں اس میں ایک طرفہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ھے عوام کو گمراہ کیا جاتا ھے اکثر ٹی وی چینل تو عوام کا زہن بنا لیتے ھیں کہ عدالت اسطرح کا فیصلہ دیگی مگر جب ایسا نہیں ھوتا تو عوام عدالت پر شک کرتے ھیں اس سے عدالت پر لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ھے جو ملک قوم ائین قانون اور عدلیہ کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ھے