عالمی تناظر میں پاکستانی سماج کی آئینہ دار کتابیں

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
عہد موجود میں، عام لوگوں نے شعور اور حساسیت کے ذریعے ایسی تحریریں لکھنا شروع کی ہیں جن کی بدولت عوام اپنے مسائل سے آشنا ہونے لگے ہیں۔
عہد موجود میں، عام لوگوں نے شعور اور حساسیت کے ذریعے ایسی تحریریں لکھنا شروع کی ہیں جن کی بدولت عوام اپنے مسائل سے آشنا ہونے لگے ہیں۔

پاکستان میں سماجیات کے موضوع پر لکھنے والوں کی تعداد میں اب حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی سماج کے متعلق اب پوری طرح انسانی احساسات بیدار ہو رہے ہیں۔

طویل عرصے سے انگلش میں سماج کی محرومیوں کوایک ’’شوپیس‘‘ کے طوپر لیا جاتا رہا، اُس پینٹنگ کی قیمت زیادہ ہوتی، جس میں ایک مفلس بچہ، کچرے کے ڈھیر سے کھانے کی کوئی چیز تلاش کر رہا ہوتا، مگر اب صورتحال کافی حد تک تبدیل ہوئی ہے۔ متوسط طبقے میں ایسے لکھاری سامنے آ رہے ہیں، جنہیں انگلش پڑھنے پر عبور حاصل ہے اور اردو زبان میں اظہار خیال پر دسترس بھی رکھتے ہیں۔

عہد موجود میں، عام لوگوں نے شعور اور حساسیت کے ذریعے ایسی تحریریں لکھنا شروع کی ہیں جن کی بدولت عوام اپنے مسائل سے آشنا ہونے لگے ہیں، جب مرحلہ شناسائی تک آ پہنچا، تو ممکن ہے اب ان مسائل کا تدارک بھی ہونے لگے کیونکہ ہمارے سماج میں عوام کی خدمت کے نام پر نام نہاد جمہوریت مسلط ہے، ابھی تک مقتدرہ حلقوں کی طرف سے صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ زیرِنظر تینوں کتابیں پاکستان کے موجودہ معاشرے کی سماجی، سیاسی اورتہذیبی شکست وریخت کو بیان کرتی ہیں۔


کتاب کانام: بکھرتا سماج (منتخب تحریروں کا مجموعہ)


زیرنظرِ اول کتاب، پاکستانی اورعالمی سیاست کی موجودہ صورت کو سمجھنے کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتی ہے۔ اس کے متن میں تاریخ کی پرچھائیاں بھی محسوس ہوں گی۔ مصنف نے پیش لفظ میں پاکستان پر ٹوٹنے والی قیامتوں کا ذکر بھی کیا، جس میں مشرقی پاکستان کی جدائی، افغانستان میں امریکا کی لڑائی، نائن الیون کی امریکی رفاقت سمیت دیگر مصائب اور سیاسی غلطیوں کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔

ماضی کے ان سیاسی بحرانوں سے معاشرہ کس طرح غیر محفوظ ہوا، اس بکھرتے سماج کی کہانی کو تمام وجوہات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے اس کتاب میں اپنی سیاسی ریاضت اور تجربے کی بدولت درست منظر نامہ رقم کیا ہے۔

انہوں نے اپنی اس خالص سیاسی نوعیت کی تحریروں کے مجموعے کاانتساب ’’ٹلہ جوگیاں‘‘ کے نام کیا ہے جو پوٹھوہاری خطے کا ایک رومانوی مقام ہے۔


- کتاب: بکھرتا سماج (منتخب تحریروں کا مجموعہ)

- مصنف: فرخ سہیل گوئندی

- صفحات: 191

- ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

- قیمت: 380 روپے

مصنف نے کم و بیش پچاس عنوانات کے ذریعے پاکستانی سیاست، سماجی مسائل، ان کی عکاسی اور حل پر زور دیا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید اور ڈاکٹر طارق عزیز نے اس کتاب اور مصنف کے متعلق اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے مصنف کی قلمی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔

مصنف نے بھی کتاب کے پر مغز پیش لفظ میں اس کتاب کے مرکزی خیال کو سمونے کی سعی کی ہے۔ کتاب میں جا بجا انگلش اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں، ممکن ہے کہ ایک عام قاری جس کا اسی سماج سے تعلق ہے اور جس پر کتاب لکھی گئی ہے اسے پڑھنے میں دشواری پیش آئے، مضمون نگار کو موضوع کی مناسبت سے قارئین کی ذہنی وعلمی استعداد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے باوجود ایک اوسط قاری کے لیے اس کتاب میں بہت کچھ ہے، البتہ کتاب کی قیمت تھوڑی زیادہ ہے مگر کتاب کی طباعت بہت عمدہ ہے۔


کتاب کانام: ظلمتِ شب


پاکستان میں سماجیات کے تناظر میں یہ دوسری کتاب بھی ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا مغربی انداز میں سنجیدہ طور پر لکھا جانا ہے۔ کوئی بات ہوا میں نہیں کی گئی۔ کتاب میں موجود جابجا مغربی دانشور شخصیات اور اداروں کے حوالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمیل خان عالمی سماجی منظر نامے پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کے مسائل کو بین الاقوامی دنیا سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

دردمندی اور دانشوری کے حسین امتزاج سے کتاب کا متن انتہائی دلچسپ ہو گیا ہے۔ صاحب کتاب چونکہ صحافتی پس منظر بھی رکھتے ہیں اس لیے ان کی پوری کتاب پر جو چیز سب سے زیادہ حاوی ہے وہ رپورٹنگ کا عنصر ہے، البتہ انہوں نے کئی جگہ غیر ضروری تفصیل بھی شامل کردی ہے جس کو باریک تدوین کے عمل سے گزارا جاتا تو مزید نکھار آ سکتا تھا۔

عنوانات کو بیان کرنے میں بھی کئی جگہ ربط سے کام نہیں لیا، مثال کے طور پر اگر ابتدائی ابواب میں مسلمانوں کے ماضی پرست ہونے کا تذکرہ اور زریں عہد کی یادوں کے منفی نقصانات کا عقلی جائزہ پیش کیا گیا تو کیا ہی اچھا ہوتا، اسے کسی ایک ہی باب میں سمیٹ لیا جاتا مگر یہی موضوع کئی بار دہرانے سے متن میں تکرار کی سی صورت حال پیدا ہوتی محسوس ہوتی ہے، جس نے مجموعی طورپر کتاب کو کمزور کیا۔ 16 ابواب پر مشتمل کتاب میں کلیدی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جن پر پاکستان اوربین الاقوامی دنیا کے مراسم کا ڈھانچہ قائم ہے۔


- کتاب: ظلمتِ شب

- مصنف: جمیل خان

- صفحات: 299

- ناشر: پورب اکادمی،اسلام آباد

- قیمت: 499 روپے

اس کتاب کے مطالعے میں قارئین کو مصنف کی وسعت مطالعہ کا قائل ہونا پڑے گا۔ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سے گزر کر کندن ہونے والے جمیل خان سے ایسی مزید کتابوں کی توقع ہے۔ امید ہے وہ تجاویز سے فائدہ اٹھائیں گے کیونکہ سماج پرلکھنے والے قلم کاروں کو ہر طرح کے قاری کا خیال رکھنا پڑے گا ورنہ پھر فلسفے کو موضوع بنایا جائے، جس کے قارئین بھی عام نہیں ہوتے۔

اس کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ہرطبقہ فکر سے تعلق کرنے والی شخصیات شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب پاکستانی صحافت کے درخشاں ستارے’’مصدق سانول‘‘ کے نام ہے جن کی دوستی پر جمیل خان فخر کرتے ہیں مگران کی جدائی انہیں رنجیدہ بھی کیے دیتی ہے۔ کتاب کی قیمت مناسب ہے۔


کتاب کانام: خیال جو حرزِ جاں ہوئے (منتخب تحریروں کا مجموعہ)

یہ کتاب ایک ایسی لکھاری کا احوال نامہ ہے جس نے وطن سے دور ہوتے ہوئے وطن کو موضوع بنایا۔ نڈر طور سے خیالات کا اظہار کرنے والی مصنفہ ’’عفاف اظہر‘‘ کی تحریروں میں ایک تلخی اور کاٹ ہے، جس کی ایک وجہ شاید ان کا اپنے معاشرے سے ناراض ہونا بھی ہے۔ اسی لیے ان کی تحریروں میں کہیں یہ بے باکی، بے ادبی میں تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستانی معاشرے، سیاست، مذہب، مراسم اور دیگر معاملات میں انہوں نے انتہائی دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی دلیری کی ایک تکنیکی وجہ ان کا پاکستان سے باہر رہائش پذیر ہونا بھی ہے ورنہ سرزمین پاکستان میں دلیری کے مندرجات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں کی سب سے بڑی خوبی سلیس زبان کا استعمال ہے۔ سماجی موضوعات پر لکھنے کے لیے جس عام اور سہل زبان کی ضرورت ہوتی ہے انہوں نے اسی کا استعمال کیا ہے۔

عفاف اظہر نے اپنی کتاب کا انتساب انسانی رشتوں، استاتذہ اور ان تمام قارئین کے نام کیا جن سے بقول ان کی تحریروں کو زندگی ملی ۔کم وبیش 75 عنوانات میں انہوں نے پاکستانی سماج اور بین الاقوامی دنیا میں پاکستانیوں کی خبر گیری کی ہے۔


- کتاب: خیال جو حرزِ جاں ہوئے (منتخب تحریروں کا مجموعہ)

- مصنفہ: عفاف اظہر

- صفحات: 309

- قیمت: 400 روپے

یہ سلسلہ یہی تک محدود نہیں رہا بلکہ پاکستان اوربیرون ملک کئی اہم شخصیات جن کا تعلق اس موضوع سے ہے، انہیں بھی اس کتاب میں یوں شریک کرلیا ہے کہ ان کی رائے اپنی کتاب میں شامل کی ہے، جن میں مرزا یاسین بیگ، جنہوں نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا، جبکہ دیگر مشاہیر میں ارشد محمود، جمیل خان، سعید ابراہیم، خالد سہیل اور دیگر شامل ہیں۔

کتاب کی قیمت مناسب ہےالبتہ کسی ناشر کا باقاعدہ نام نہ ہونا کتاب کو مشکوک بھی بنا سکتا ہے کیونکہ طابع کا خانہ خالی چھوڑا گیا ہے جبکہ اہتمام میں ایمن فاؤنڈیشن کا نام درج ہے جس کے متعلق کوئی تفصیل درج نہیں ہے جس سے ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Dec 02, 2016 06:40am
خرم صاحب کی ایک اور اہم تحریر جس سے ہمیں پاکستان میں اردو میں چھپنے والی کتب کے بارے میں پتا چلا۔شکریہ