اب چوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاک فوج کی کمان منتقل ہو چکی ہے، سو اب نئے آرمی چیف کے لیے کیا کرنے اور کیا نہ کرنے کے مشوروں کا تانتا بندھ گیا ہے۔

جہاں کچھ لوگ ان پر اپنے مقبول عام اور غیر معمولی طور پر فعال سابقہ ہم منصب کی پیروی کرنے پر زور ڈال رہے رہیں ہیں تو وہیں کچھ انہیں خطرات سے خبردار کرتے ہوئے سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے بعد اب تمام نظریں نئے آرمی چیف پر مرکوز ہیں۔

بلاشبہ جنرل باجوہ سے غیر حقیقی توقعات وابستہ ہوچکی ہیں مگر ایسے ملک میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں جہاں آرمی چیف کو سب سے زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ فوجی قیادت کی منتقلی بھی ایک کثیر غیر معمولی سیاسی اہمیت رکھتی ہے۔

حسبِ توقع وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس اہم عہدے کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے جس سے یہ دوڑ جیتنے کی توقع بہت کم کی جا رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ جنرل باجوہ کا انتخاب سینیارٹی یا میرٹ کی بنیاد سے زیادہ سیاسی لحاظ سے کیا گیا، تاہم ان کے پروفیشنل ازم اور تجربے پر کوئی شبہ نہیں۔ شاید اس فیصلے کے پیچھے یہ سوچ ہوگی کہ کوئی ایسا شخص اس عہدے پر فائز ہو جو سول حکام کا فرمانبردار ہو۔

ریاست کے دو اداروں کے درمیان لگاتار تناؤ کی معاملے پر شاید ہی کوئی اختلاف رکھتا ہو۔ ہاں، افراد کی تبدیلی سے فرق پڑتا ہے مگر ماضی کا تجربہ اس بات کا گواہ ہے کہ چاہے کمان کسی کے بھی ہاتھ میں ہو، آخر میں وہ ادارہ ہی ہے جو سب پر غالب رہتا ہے۔

نواز شریف نے تیسری بار آرمی چیف کی تقرری کی ہے۔ انہوں نے ہر بار ایک ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جس کا نام فہرست میں نیچے تھا، لیکن پھر بھی فوجی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ ہی سے متنازع رہے۔ جنرلوں سے محاذ آرائی کی قیمت انہیں اپنی دوسری حکومت کھو کر چکانی پڑی۔

یہ محض طاقت میں عدم توازن نہیں ہے جس وجہ سے فوج خارجہ پالیسیز اور قومی سلامتی کی پالیسیز پر غالب رہتی ہے، مگر طاقت کے حصول کی ایک مسلسل کشمکش بھی ہے جس سے اکثر جمہوری نظام کے پٹڑی سے اترنے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ خطرے کی یہ تلوار گزشتہ تین سالوں سے شریف حکومت پر لٹکی رہی۔

جنرل باجوہ ایک معقول اور بات تسلیم کرنے والے افسر کی ساکھ رکھتے ہیں مگر اس کے ساتھ وہ زبردست پروفیشنل بھی ہیں۔ لیکن ہمیشہ سے موجود پیچیدگیوں کے پیش نظر ان کے لچکدار ہونے کی بہت ہی تھوڑی امید کی جاسکتی ہے۔ ایسا سوچنا کافی سادہ لوحی کی بات ہے کہ فوجی قیادت کی تبدیلی کے ساتھ تناؤ کی تمام وجوہات بھی ختم ہو جائیں گی۔

اس تقسیم کا نہ صرف تاریخی پس منظر سمجھے جانے کی ضرورت ہے بلکہ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ طاقت کا پلڑہ سول حکام کی جانب لانے کے لیے کیا اقدامات درکار ہیں۔

کوئی بھی شخص سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی اس بات سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ ملک میں جمہوری نظام کے لیے سب سے مشکل چیلنج سول ملٹری تقسیم ہے۔

ان کی اس بات کو بھی درست ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ طاقت کا مرکز راولپنڈی سے اسلام آباد منتقل ہونا چاہیے مگر اس عدم توازن کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

مسئلے کی واضح فہم کے بغیر سول بالادستی کا مطالبہ کرنا محض سیاسی نعرہ بن جاتا ہے جو کہ تدارک کی کسی ٹھوس تجویز کے بغیر ہر سیاسی جماعت استعمال کرتی ہے۔

اگرچہ سول حکومت کے پاس اب پہلے سے زیادہ سیاسی قوت ہے مگر فوج اب بھی ایک غالب سیاسی قوت کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس کے ہر اقدام، یہاں تک کہ اشارے کی بھی گونج اسلام آباد تک سنائی دیتی ہے۔

داخلی سلامتی میں بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت زیادہ ہو چکی ہے جس سے سول و عسکری حکام کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد پر اختلافات بھی سول اور عسکری قیادت کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ رہا ہے۔ ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں کہ اس معاملے پر فوج کے ادارتی خیالات ایک نئے چیف کی تبدیلی سے بدل جائیں گے۔

داخلی سلامتی کے چیلنجز اور اس سے نمٹنے میں سول سکیورٹی اداروں کی نااہلی کے باعث فوج پر حکومت کا انحصار بڑھ چکا ہے۔ فوج کی مداخلت خاص طور سی پیک منصوبوں کے تحفظ کے لیے مطلوب سکیورٹی اور بلوچستان میں امن و امان کی مشکل صورتحال کی وجہ سے بڑھی ہے۔

دوسری جانب شمالی وزیرستان میں فوجی کامیابیوں کے حصول کے باوجود قبائلی علاقوں میں شورش کے خلاف جاری مہم دور دور تک ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ فوجیوں کی ایک کثیر تعداد اب بھی فاٹا کی تمام ساتوں ایجنسیز میں کومبنگ اور ہولڈنگ آپریشنز میں مصروف ہیں۔

صرف علاقہ کلیئر کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ایک دہائی سے چلنے والی لڑائی سے تباہ حال ہونے والے مقامات پر مستحکم امن اور ایک فعال انتظامیہ کو قائم کرنے بھی ضرورت ہے۔ ہجرت کرنے والی آبادی کی واپسی اور بحالی جیسی اہم ذمہ داری بھی فوج پر عائد ہوتی ہے، جبکہ سول حکام دیگر امور کی طرح یہاں پر بھی پس منظر میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ خطے میں فوجیوں کو رکھنا بلاشبہ ایک طویل مدتی مسئلہ ہے۔

غیر معمولی جغرافیائی اہمیت، علاقائی تنازعات میں مداخلت اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بنیادی حریف بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے پیش نظر پاکستان ایک قومی سلامتی کی ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے لہٰذا فوج ملک میں براہ راست حکمران نہ ہوتے ہوئے بھی قومی سلامتی کی پالیسیاں بنانے میں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی فوج قومی سلامتی کے جدید نظریے کو قبول کرنے پر راضی ہیں اور وہ اب بھی اسے ایک خالصتاً فوجی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آج کی دنیا میں قومی سلامتی کے دھارے میں معیشت، خوراک اور ماحولیاتی سکیورٹی جیسے کئی اہم عناصر شامل ہیں۔

اس کے باوجود بھی ریاست کے تنگ نظر نظریے میں تبدیلی کا کوئی اشارہ دکھائی نہیں دیتا۔ بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی اور افغانستان میں مسلسل عدم استحکام سے قومی سلامتی کی پالیسی پر تنہا فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی غالب رہے گی۔ کسی بھی وژن سے عاری سول حکومت سے چارج لینے کی کوشش کی بھی توقع کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

تنازعے کی دوسری بڑی وجہ خارجہ پالیسی کے معاملات پر فوج کا قبضہ ہے۔ اس صورتحال میں بھی کوئی ممکنہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی تاہم تھوڑی حد تک اشارے موجود ہیں کہ جنرل باجوہ ممکنہ طور پر اپنے سابقہ ہم منصب کے برعکس دنیا کے دارالحکومتوں کے غیر معمولی دوروں میں خاص دلچسپی نہ لیں۔ ایک بار پھر، سول حکام کی جانب سے واضح پالیسی رہنمائی کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ خلا پیدا ہوا ہے جسے فوج نے پُر کیا ہے۔

بلاشبہ کئی سیاسی چیلنجز کا سامنا کر رہی شریف حکومت کو فوجی کمان کی تبدیلی سے تھوڑا سکھ کا سانس ملے گا، مگر موجودہ سول عسکری عدم توازن میں کسی غیر معمولی تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 نومبر 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں